کرونا ویکسینز کے بارے میں اہم معلومات جو جاننا ضروری ہیں

پوری دنیا اس وقت کورونا وبا کا شکار ہے۔ وبا ایک ایسی بیماری کو کہا جاتا ہے جو بیک وقت دنیا بھر میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے۔ انسانی تاریخ میں بڑی بڑی وباؤں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیلا جیسے طاعون، چیچک وغیرہ ۔ بالآخر ان کے علاج دریافت ہوئے اور لوگوں کو ان سے تحفظ ملا۔ اسی طرح اس وقت بھی کم و بیش ڈیڑھ سال سے دنیا کو کورونا کی جس وبا کا سامنا ہے، اب اس کا علاج سامنے آچکا ہے اور مختلف اقسام کی ویکسین ٹرائل کے مراحل سے گزرنے کے بعد دنیا بھر میں لوگوں کو دستیاب ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے ہاں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم کورونا ویکسین کے حوالے سے سلگتے ہوئے سوالات کی بھرمار ہے۔ لوگ طرح طرح کے خدشات میں مبتلا ہیں اور افواہوں کا بازار گرم ہے جس سے عام لوگوں میں ویکسین کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ کورونا ویکسین کا کیا فائدہ ہے بالخصوص وبا کی صورت میں اس کا کردار کیوں بڑھ جاتا ہے؟ مختلف امراض میں مبتلا لوگوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کے لیے ویکسین کس قدر محفوظ ہے؟ اس کے سائیڈ ایفکٹس کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کون سی ویکسین زیادہ بہتر ہے؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کورونا سے 100 فیصد تحفظ یقینی ہو جاتا ہے؟ یہ مختلف سوالات ہیں جن کے جوابات ماہرین نے فراہم کیے ہیں۔

٭ ویکسین کا کیا فائدہ ہے اور کسی بھی وبا میں اس کا کردار اتنی اہمیت کیوں اختیار کرتا ہے؟
پروفیسر محمد رفیق کھانانی، صدر انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان کا کہنا ہے: ’’ ویکسین کوئی نئی چیز نہیں ہے، سینکڑوں سالوں سے مختلف وباؤں کو کنٹرول کرنے میں اس کا کردار نہایت کلیدی رہا ہے۔ کون بھی انسان یا دیگر جاندار جب بیمار ہوتے ہیں تو قدرت نے ان کے جسم میں ایسی صلاحیت رکھی ہے جو اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت بناتی ہے۔ یہ قوت مدافعت دوسری دفعہ بیمار ہونے کی صورت میں اس کے کام آتی ہے۔ یہ بیماری کو ہونے نہیں دیتی یا پھر اس کی شدت سے بچاتی ہے۔ یہی فلاسفی ویکسین میں کار فرما ہے کہ بیماری پیدا کرنے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر کے یا تو اس وائرس کا خاتمہ کرتی ہے یا اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتی ہے۔ ‘‘

٭ دیگر امراض مثلاً دمہ، ذیابیطس، بلڈ پریشر، گردہ، دل کے امراض میں مبتلا افراد جو تسلسل سے دوائیں استعمال کر رہے ہوں، کیا یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں ، اسسٹنٹ پروفیسر متعدی امراض، انچارج کووڈ ICU، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کہتے ہیں:’’ پاکستان میں اس وقت چار سے پانچ قسم کی کورونا ویکسین دستیاب ہیں اور تحقیق کے مطابق تمام کی ویکسین ان بیماریوں میں بھی مفید ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے ویکسین کا لگوانا زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ اگر ان امراض میں مبتلا لوگوں کو کورونا انفیکشن ہو گا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہو گا اور ایسے مریضوں کو آکسیجن کی کمی درپیش ہو سکتی ہے یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘

٭ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے بھی کیا کورونا ویکسین محفوظ ہے؟
پروفیسر ندیم رضوی، سابق سربراہ امراض سینہ جناح ہسپتال کا کہنا تھا: ’’حمل ایک نہایت نازک مرحلہ ہوتا ہے جس میں ہم مریضوں کو بہت زیاہ احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض اوقات توخواتین کو ڈسپرین دیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں لیکن یہ ویکسین اس قدر محفوظ ہیں کہ بلاجھجھک لگوائی جا سکتی ہیں۔ ایسے کسی بھی خیال کو دماغ میں جگہ نہیں دینی چاہیے کہ ویکسین لگوانے سے حاملہ خواتین کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔ تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دوران حمل اور بریسٹ فیڈنگ میں ان ویکسین کا کوئی منفی ردعمل نہیں ہے۔‘‘

٭لوگوں میں ویکسین لگوانے کے مضر اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کے بارے میں بہت سے خدشات ہیں۔ عموماً کس طرح کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں؟
پروفیسر سہیل اختر، سربراہ شعبہ پلمانالوجی انڈس ہسپتال، سابق صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’اب تک کی تحقیق اور رپورٹس میں ویکسین سے شدید نوعیت کے مضر اثرات نہ صرف ہماری ہاں بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھے گئے۔ جو عام شکایات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ویکسین کا انجکشن لگنے سے ہلکی سوجن ہو سکتی ہے، بعض کو ہلکا بخار، جسم یا سر میں ہلکا درد ہو سکتا ہے اور یہ بھی 24 گھنٹے کے اندر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے مضر اثرات نہیں ہیں جن کی وجہ سے آپ ویکسین ہی سے انکار کر دیں۔ دوسری جانب یہ وہ بیماری ہے جس نے اب تک دنیا میں 37 لاکھ لوگوں کی جان لے لی ہے۔‘‘

٭ویکسین لگوانے والے کچھ افراد میں کلاٹنگ کی بھی شکایات سامنے آئی ہیں، ان پر کیا کہتے ہیں؟
پروفیسر سہیل اختر کہتے ہیں: ’’ اسٹرازینیکا ویکسین لگوانے کے بعد بعض لوگوں میں کلاٹنگ کی شکایات سامنے آئیں۔ یہ ویکسین سب سے زیادہ برطانیہ میں استعمال ہوئی۔ وہاں پر ہونے و الی تحقیق کے مطابق کلاٹنگ کی شکایت دس لاکھ میں سے صرف 40 لوگوں کو ہوئی۔ یہ اتنا کامن سائیڈ ایفکٹ نہیں ہے۔ تاہم اس ویکسین میں احتیاط کرنی چاہیے کہ 40 سال سے کم عمر کو نہ لگائی جائے یا ایسے افراد جن میں مختلف بیماریوں کے سبب کلوٹنگ کا رجحان ہو مثلا کینسر کے مریض۔ باقی افراد کے لیے اس میں کسی بھی قسم کا کوئی رسک نہیں ہے۔ ‘‘

٭پاکستان میں اس وقت جتنی بھی ویکسینز دستیاب ہیں، ان میں کیا فرق ہے؟ کون سی زیادہ مؤثر اور مفید ہے ؟ ڈاکٹر عاطف حفیظ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا کہنا تھا : ’’اس وقت ہمارے ملک میں دستیاب ویکسینز میں افادیت کی شرح مختلف سٹڈیز میں مختلف ضرور ہے لیکن سب میں یہ بات مشترک ہے کہ کورونا وائرس کی شدت سے بچاتی ہیں۔ جب ہم بیماری کی شدت کا لفظ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی بیماری جس میں ہسپتال میں داخل ہونے، آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ جائے۔ عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان نے جتنی بھی ویکسینز کی منظوری دی ہے وہ سب کی سب یکساں طور پر محفوظ اور مفید ہیں۔

٭عموماً ویکسین کی تیاری میں سالوں کا وقت لگتا ہے، کورونا ویکسین کی بہت جلد تیاری نے بھی اس کے بارے میں شبہات کو جنم دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیق کھانانی کا کہنا تھا: ’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کورونا جس طرح پوری دنیا میں قیامت ڈھا رہا تھا تو اس سے تحفظ فراہم کرنے کی تمام اقدامات میں بھی سرگرمی دکھائی گئی۔ ویکسین بنانے کے تمام عمل میں مروجہ سٹینڈرڈز پر پوری طرح عمل کیا گیا، اس کی منظوری میں عمومی طور پر جو سالوں کی تاخیر ہوتی تھی، اسے تیزی سے مکمل کیا گیا۔ موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کے تمام تر ذرائع کے باعث ٹرائل کے تمام مراحل بھی جلدی طے کرنے میں معاونت حاصل ہوئی۔ دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ ویکسینز دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو لگائی جا چکی ہیں، یہ اس قدر مؤثر ہیں کہ جن ممالک میں یہ زیادہ لگی ہیں ، وہاں زندگی پوری طرح معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔‘‘

٭کیا 2 ڈوزز والی ویکسین میں ہر ڈوز الگ الگ ویکسین کی لگوائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں نے جواب دیا: ’’ ابتدائی انٹرنیشنل گائیڈ لائینز میں کہا گیا تھا کہ اگر کسی ویکسین کی 2 ڈوزز ہیں تو وہ same ویکسین ہی کی لگوائی جائیں لیکن بعد ازاں mix and match سے کافی اچھے نتائج برآمد ہوئے اور تحقیق کے بعد بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں اینٹی باڈی کے لیول بہت اچھے آئے ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں ایسی کوئی قباحت نہیں ہے کہ پہلی ڈوز کے بعد دوسری ڈوز کسی اور ویکسین کی لگوا لی جائے۔ تاہم پورے نظام کو سٹینڈرڈائز کرنے میں تکنیکی اعتبار سے دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے جیسے ویکسی نیشن سرٹیفیکیٹ کے اجراء میں اس کی وضاحت کیسے ہو گی۔ اس تناظر میں کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ہی ویکسین کی دونوں ڈوز لگوائی جائیں‘‘۔

٭اگر انسان کسی وجہ سے دوسری ڈوز نہ لگوا سکے تو کتنے عرصے تک وہ لگوا سکتا ہے؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں کا کہنا ہے: ’’ ویکسین کے درمیان وقفہ کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگر دوسری آپ بروقت نہ بھی لگوا سکیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، جب ممکن ہو لگوا لیں خواہ اس میں تین ماہ یا چھ ماہ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ وہ جب بھی لگے گی تو دوسری ڈوز ہی سمجھی جائے گی اور پہلی ڈوز کی افادیت کم نہیں ہو گی‘‘۔

٭ان باتوں میں کیا حقیقت ہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد دو سال میں مر جائیں گے؛ ویکسین سے DNA بدلے جا رہے ہیں؛ جسم میں چپ داخل کی جا رہی ہے؛ ویکسین لگوانے والوں کو جسم پر مقناطیس چپک رہے ہیں ؟
ڈاکٹر ندیم رضوی ان سب باتوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ’’ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر بالخصوص غلط معلومات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ یہ رویہ ہماری دینی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ عوام کو ایسی باتوں سے دور رہنا چاہیے اور ماہر طب سے ہی مشورہ لینا چاہیے اور اسی کے مشورے کو اہمیت بھی دینی چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر محمد رفیق کھانانی کا کہنا ہے: ’’ دو سال میں مرنے والی وائرل پوسٹ جس سائنس دان سے منسوب کی گئی ہیں انہوں نے ایچ آئی وی ایڈز کا وائرس identitify کیا تھا۔ اسی بناء پر انہیں نوبل انعام بھی ملا تھا۔ میری ان کے ساتھ کئی بار ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے انہیں اس بارے میں ای میل کی تو انہوں نے اس کی تردید کی اور بتایا کہ وہ اس بارے میں انٹرنیشنل میڈیا میں بھی تردید کر چکے ہیں۔ ان کا مؤقف بھی یہی ہے کہ ویکسی نیشن کے بغیر کسی بھی وبا کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

٭کورونا کا کیا مستقبل ہے؟ کیا یہ اپنی موت آپ مر جائے گا ؟ دنیا امیونٹی لیول حاصل کر لے گی یا کچھ سال بعد ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی ضرورت پڑے گی؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں کا کہنا ہے:’’ کورونا کے خلاف ویکسین ہی پاور فل ہتھیار ہے، لیکن اس وقت ایک تو لوگوں میں لگوانے کے رجحان میں بھی کمی ہے اور دوسرا ویکسین کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ دوسری وباؤں کی طرح لگتا ہے کہ اس کے کیسز کم ہوں گے لیکن آتے رہیں گے۔ بوسٹر ڈوز کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ابھی مشکل ہے، لیکن ماہرین کے خیال میں یہ ویکسین اس وائرس کے خلاف کافی عرصے تک کارآمد رہے گی۔ ہو سکتا ہے کہ دس سال سے قبل اس کے بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہ پڑے ۔ ‘‘

٭ٹین ایجرز کی ویکسی نیشن سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں:’’ 18 سال کم عمر سپیشل گروپ ہوتا ہے۔ اس وقت جتنی بھی ویکسین بنانے والی کمپنیاں ہیں، ان میں فائزر کے علاوہ کسی بھی کمپنی کے پاس ٹین ایجرز کے حوالے سے سیفٹی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم فائزر ویکسین 12 سے زیادہ عمر کے بچوں میں لگانے کی سفارش آگئی ہے۔ اس کے علاوہ سیفٹی ڈیٹا نہ ہونے کے باعث کسی دوسری ویکسین کو بچوں کے لیے سفارش نہیں کیا جا رہا ۔ ‘‘ اس حوالے سے ڈاکٹر ندیم رضوی کا کہنا ہے:’’ چونکہ یہ مرض عام افراد کی نسبت بچوں میں بہت ہی کم شرح کے ساتھ دیکھا گیا ہے ، اسی بناء پر اصل توجہ کا مرکز وہ ایج گروپس ہیں جن میں اس مرض نے شدت کے ساتھ حملہ کیا ہے۔ ‘‘

٭کیا ویکسین لگوانے والے فرد کو کورونا ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ویکسین کیوں لگوائیں؟
ڈاکٹر ندیم رضوی کا کہنا ہے:’’ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ویکسین لگوانے کے بعد کووڈ ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر خدانخواستہ کورونا ہو گا بھی تو وہ جان لیوا نہیں ہو گا اور یہی سب سے اہم بات ہے۔ ویکسین لگوانے کے بعد 100 فیصد یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ محفوظ ہو گئے ہیں جب تک کہ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ ویکسین نہیں لگوا لیتے، اس وقت تک ہم سب کو سماجی فاصلہ، ہاتھوں کو دھونا اور ماسک لگانے جیسی عادات کو جاری رکھنا پڑے گا۔‘‘

(یہ مضمون پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک ویبینار کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ اس ویبینار کا مقصد کورونا ویکسین کے بارے میں عام ذہنوں میں موجود خدشات کو دور کرنا اور زبان زد عام سوالات کے جواب دے کر قوم کو شعور صحت دینا تھا۔

عبد الودود

بشکریہ ایکسپریس نیوز

گھر میں آکسیجن سلینڈر رکھنے کیلئے کونسی احتیاطی تدابیر ضروری ہیں ؟

کورونا وائرس کی وباء کے دوران آکسیجن نہ ملنے کے خوف کے باعث لوگوں نے اپنے پیاروں کو بروقت آکسیجن کی فراہمی کے لیے گھروں میں آکسیجن سلنڈرز رکھنا شروع کر دیئے ہیں، ایسا کرنا غلط نہیں مگر اس کیلئے کون کون سی احتیاطی تدابیر ضروری ہیں؟ یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے۔ کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث بر وقت آکسیجین نہ ملنے اور مریض کی حالت خراب ہونے کے پیش نظر لوگوں نے اپنے پیاروں کو آکسیجن کی بروقت فراہمی کے لیے گھروں میں آکسیجن سلنڈر رکھ لئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آکسیجن سلنڈر کو آئل سے دور رکھیں، گرنے سے بچائیں اور سلنڈر جس جگہ موجود ہے وہاں سگریٹ نوشی سے گریز کریں۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں 50 سے 250 کیوبک فٹ تک کے آکسیجن سلنڈر دستیاب ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آکسیجن سلنڈر لیتے وقت اس کے ٹیسٹ سے متعلق چیکنگ کی تاریخ دیکھنا بھی ضروری ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کورونا وائرس سے جلد صحت یابی میں کون سی اشیا مددگار ہیں؟

کورونا وائرس سے صحت یابی کا دورانیہ کم یا زیادہ کئی وجہ سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عمر، جنس، صحت مسائل، مدافعتی نظام وغیرہ۔ ماہرین خوراک اور ڈاکٹروں کے مشورے مدافعتی نظام مضبوط بنانے اور کورونا وائرس سے جلد ازجلد صحت یابی میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔ الرجل میگزین نے اس حوالے سے ڈاکٹروں اور ماہرین خوراک سے بات چیت کر کے مشوروں پر مشتمل یہ رپورٹ شائع کی ہے۔ ڈاکٹر اور ماہرین خوراک کہتے ہیں کہ کورونا سے تیزی سے صحت یابی کے لیے چار اشیا کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ زنک سے وائرس سے پیدا ہونے والی کمزوری دور ہوتی ہے۔ یہ مریض کے جسم میں آنے والی کمزوری کو قابو کرتا ہے۔ روزانہ 50 ملی گرام زنک استعمال کیا جائے۔ وٹامن سی کورونا وائرس ہونے کی صورت میں جسمانی سوزش کو قابو کرنے میں معاون بنتا ہے۔

یہ مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار بڑھا دیتا ہے اور نئے لمفی خلیے تخلیق کرتا ہے۔ ہلدی مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے، بیکٹریا اور وائرس کو توڑنے، سینے کی گھٹن کم کرنے، کھانسی کو قابو کرنے اور ٹھنڈ سے نجات حاصل کرنے میں بے حد مفید ہے۔ وٹامن ڈی نظام تنفس میں وائرس جانے سے روکتا ہے۔ کورونا وائرس لگنے پر بھی مریض اسے استعمال کرتا رہے اور شفا پانے کے بعد بھی اس کا استعمال جاری رکھے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا سے متاثر ہونے اور اس سے صحت پانے کے بعد بھی متوازن صحت بخش خوراک کا استعمال جاری رکھا جائے۔ کھانے وٹامن سی، میگنیشیم اور کیلشیم سے مالا مال ہوں۔ اس قسم کے کھانوں کے استعمال سے مدافعتی نظام مضبوط ہو گا۔ صحت تیزی سے بحال ہو گی اور بیماری کی علامتوں کے اثرات کم ہوں گے۔

بشکریہ اردو نیوز

پاکستان میں کرونا ویکسی نیشن کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے۔ تاہم ملک میں بہت سے لوگ ویکسین کی افادیت اور اس کے اثرات کے حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کرونا ویکسین سے متعلق عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ویکسین آپ کو وبا سے 100 فی صد محفوظ رکھتی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں متعارف کرائی گئی ویکسین کتنی مؤثر ہے، کیا واقعی اس کے منفی اثرات ہیں؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کرونا نہیں ہوتا؟ ان سوالات اور کرونا ویکسین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے پنجاب میں کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی رُکن ڈاکٹر صومیہ اقتدار سے گفتگو کی ہے۔

کیا ویکسین کرونا کے خلاف مکمل تحفظ دیتی ہے؟
ڈاکٹر صومیہ اقتدار کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ دوبارہ انفیکشن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ہر ویکسین کی ایک شرح افادیت ہوتی ہے اور پاکستان میں لگائی جانے والی چین کی ‘سائنو فارم’ ویکسین کمپنی کے مطابق ان کی ویکسین 72 فی صد مؤثر ہے۔ یعنی ان کے بقول ویکسین لگوانے کے باوجود 28 فی صد افراد میں یہ امکان رہتا ہے کہ انہیں دوبارہ کرونا ہو سکتا ہے۔

کون سی کرونا ویکسین زیادہ مؤثر ہے؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ‘سائنو فارم’ کے علاوہ چین کی ہی ‘کین سائنو’ ویکسین 75 فی صد تک مؤثر ہے جس کی ایک خوراک لگائی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نجی طور پر لگائی جانے والی روسی ویکسین ‘اسپوتنک فائیو’ کی شرح افادیت 90 فی صد ہے۔

پھر ویکسین لگوانے کا فائدہ؟
ڈاکٹر صومیہ کا ویکسین لگوانے کے فوائد بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ جو لوگ کرونا سے متاثر ہوتے ہیں اور انہوں نے ویکسین لگوائی ہوتی ہے تو وہ اس وبا سے معمولی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے بقول گو کہ ویکسین بیماری کے خلاف 100 فی صد تحفظ فراہم نہیں کرتی، تاہم یہ مریض کو شدید بیمار ہونے اور اس کی جان جانے سے بچاتی ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی شخص وائرس کا شکار ہو بھی جاتا ہے تو معمولی علامات کے بعد وہ جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔

ویکسین کی دو خوراکیں کیوں ضروری ہیں؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق کرونا ویکسین کی پہلی خوراک لگانے کے پانچ سے چھ دنوں بعد اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ ریسپانس اتنا کافی نہیں ہوتا کہ یہ آپ کو بیماری سے مکمل محفوظ رکھ سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا ویکسین کی دوسری خوراک لگنے کے 15 سے 20 دنوں بعد ریسپانس اتنا اچھا ہوتا ہے کہ آپ کو بیماری سے بچایا جا سکے۔

کیا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے دوران کرونا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک لگوانے کے درمیانی عرصے میں بھی انفیکشن ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اُن کے بقول اس وقت جسم میں قوتِ مدافعت ناکافی ہوتی ہے۔

کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کے لیے بھی ویکسین ضروری ہے؟
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ چوں کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں۔ لہذا انہیں ویکسین کی ضرورت یا ویکسین کی دونوں خوراکوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ ایک نیا وائرس ہے۔ اس لیے اس پر ابھی اتنی تحقیق نہیں کی گئی کہ پتا ہو کہ اس کے خلاف قوت مدافعت کتنی دیر تک موجود رہتی ہے۔ لہذا ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ قوت مدافعت جتنی بہتر ہو گی اتنا اچھا ہے۔

ویکسین لگوانے کے بعد ری ایکشن کے امکانات
برطانیہ اور یورپی ممالک میں ‘آکسفورڈ یونیورسٹی’ کی تیار کردہ ‘ایسٹرا زینیکا’ ویکسین لگوانے سے ہونے والی اموات اور بلڈ کلوٹس (خون کے لوتھڑے) بننے کی شکایات سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لگائے جانے والی سائنو فارم، ‘کین سائنو’ اور ‘اسپوتنک فائیو’ ویکسین بہت محفوظ ہیں اور ان کے تاحال منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسینز لگوانے کے بعد معمولی بخار، جسم درد یا انجکشن والی جگہ پر درد ہو سکتا ہے جو کوئی بھی اور ویکسین لگوانے سے بھی ہو سکتا ہے۔

کیا ویکسین بچوں کو بھی لگائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق پاکستان میں سائنو فارم ویکسین کو صرف 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہی لگانے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آزمائش بچوں میں نہیں کی گئی۔

ویکسین لگوانے کے بعد تدابیر؟
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی وہی احتیاطی تدابیر اپنائی جانی چاہئیں جو ویکسین لگوانے سے پہلے اپناتے ہیں۔ ان کے بقول یہ سب اس لیے ضروری ہے کیوں کہ کرونا ویکسین آپ کو 100 فی صد بیماری سے نہیں بچاتی تاہم یہ شدید بیمار ہونے اور موت سے بچاتی ہے۔

نوید نسیم

بشکریہ وائس آف امریکہ

کورونا وائرس کی تیسری لہر

کورونا کی تیسری لہر پاکستان پہنچ چکی ہے۔ اِس لہر نے یورپ اورہمارے پڑوسی بھارت کو کچھ عرصے قبل اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ اس وبا کے خلاف پاکستان کی اب تک کی کارکردگی تو اطمینان بخش تھی، لیکن اب کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ تعداد روایتی طور طریقوں اور ’’ایس اوپیز‘‘ پر عمل درآمد کی اپیلوں سے نہیں رُکے گی۔ ایک نیا لاک ڈاؤن امکانی ہے، جو غریب عوام اور معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ ہم معیشت بچانے کے لیے انسانی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ صورت حال کے بگاڑ کی ایک وجہ گزشتہ ایک برس سے نافذ لاک ڈاؤن سے متعلق عوام کو لاحق پریشانی بھی ہے۔ یہ لگاتار دوسرا رمضان ہے، جب نہ تو ہم اپنے دوستوں، عزیزوں کو افطار پر مدعو کر سکتے ہیں، نہ ہی عبادات کے لیے اعتماد سے گھروں سے باہر جاسکتے ہیں۔

افطاری کے بعد مارکیٹوں کا رخ کرنا، وہاں تحائف اور کپڑوں کا انتخاب، یہ ایک عام چلن تھا۔ اب یہ چلن ایک خطرناک عمل بن چکا ہے، کیوں کہ مارکیٹوں میں احتیاطی فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ موجودہ حالات میں درزیوں کے پاس جانا، بالخصوص رش والی چھوٹی دکانوں پر، قطعی مناسب نہیں۔ ایک جانب پابندیوں کی تھکن ہے، دوسری طرف ویکسی نیشن کی رفتار بھی کچھ سست ہے۔ پاکستان میں 113.4 ملین بالغان کو ویکسین کی ضرورت ہے۔ چین نے پہلے مرحلے میں پاکستان کو ویکسین کی نصف ملین ڈوز ارسال کی تھیں۔ مزید 5 لاکھ سینوفرم خوراکیں اور 60 ہزار کین سینو خوراکیں تین ہفتوں قبل موصول ہوئیں، مزید 5 لاکھ خوراکیں جلد متوقع ہیں، مگر پاکستان کی آبادی کو دیکھتے ہوئے انھیں فقط سمندر میں قطرہ ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت مارکیٹ سے زیادہ ویکسین نہیں خرید رہی۔ ساتھ ہی مزید ایک لاکھ ویکسین کی آمد کی بھی تصدیق نہیں ہوئی۔ اور پھر ہماری ضروریات کے پیش نظر یہ تعداد بھی کم ہے۔ فائزر بائیو این ٹیک اس وقت سب سے مطلوب ویکسین ہے، مگریہ مارکیٹوں میں موجود نہیں، کیوں کہ اس کی سپلائی امریکا کنٹرول کر رہا ہے۔ خیر، افواہ ہے کہ کئی ملین خوراکوں کا معاہدہ کیا گیا ہے، مگر اس کی سرکاری تصدیق ہونا باقی ہے۔ دوسرا مسئلہ سرمائے کا ہے۔ فی الحال پاکستان مفت فراہم کی جانے والی ویکسین وصول کر رہا ہے۔ جب آپ کے ہاں ویکسین لگوانے کی آمادگی کم ہو اور غربت بہت زیادہ ہو، ایسے میں پیسے دے کر ویکسین خریدنا مقبول چلن نہیں۔ اس مرض کے ابتدائی مرحلے ہی میں یہ واضح ہو گیا کہ اس عالمی بحران سے نمنٹے کے لیے ہمیں فقط کووڈ نائنٹین ویکسین درکار نہیں، بلکہ ہمیں اس کی ہرفرد تک رسائی بھی ممکن بنانی ہو گی۔ اگر صرف دولت مند اقوام کی اُن تک رسائی ہو، اور غریب اقوام اُن سے محروم رہیں، پھر تو یہ وبا شاید ہی ختم ہو۔ کیوں کہ عوام کی نقل و حرکت کے ساتھ یہ مرض پھیلتا جائے گا اور وائرس میں میوٹیشن ہوتی رہے گی۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبیلو ایچ او)، یورپی یونین اور فرانس کی جانب سے (کویکس) کا تصور پیش کیا گیا۔

یہ پروگرام حکومتوں، عالمی صحت کی تنظیموں، صنعت کاروں، سائنس دانوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کو اکٹھا کرتا ہے اور اس کا مقصد مفت یا کم لاگت میں COVID کی تشخیص، علاج اور ویکسین تک مساویانہ رسائی کا اہتمام ہے۔ یہ اس وبائی بیماری کا واحد حقیقی حل ہے، کیوں کہ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں لوگوں کو ان کی مالی حیثیت سے قطع نظر ویکسین فراہم کی جائے۔ توقع ہے کہ پندرہ ملین خوراکوں کے ساتھ پاکستان یہ ویکسین وصول کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ ُان کی ڈلیوری کے بارے میں تاحال کچھ حتمی نہیں۔ پھریہ ویکسین ’’پہلے آئیں، پہلے پائیں ‘‘کی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہیں، ایسے میں مغربی ممالک کی معاہدوں اور رقم کی ادائیگی میں پہل کے باعث ہمارے ہاں اُن کی ترسیل میں تاخیر متوقع ہے۔ جی او پی کا نجی کمپنیوں کے ذریعے پاکستان میں ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دینا ایک انتہائی معقول اقدام تھا۔

اس اسکیم کے تحت روسی ساختہ اسپوتنک ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں اور تھوڑی تعداد میں چینی ویکسین درآمد کی گئیں۔ البتہ ان ویکسینز کی فروخت میں تاخیر کا سبب ان کی قیمت کے تعین کے لیے جاری بے انت مذاکرات رہے۔  ادھر اسپوتنک ویکسین کراچی کے نجی اسپتالوں میں 15000 روپے کے عوض مع تمام اخراجات، دو مراحل میں لگائی گئی۔ اگر اسپوتنک کی دنیا میں رائج قیمت دیکھی جائے، تو یہ کوئی معمولی رقم نہیں، لیکن اگر کورونا میں مبتلا ہو کر آپ اسپتال میں داخل ہوتے ہیں، تو اس لاگت کے مقابلے میں تو یہ قلیل رقم ہی ہے۔ تو اگر آپ پندرہ ہزار ادا کر کے اس مرض سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، تو یہ اچھا سودا ہے۔ شاید اسی سوچ کے تحت کراچی اور دیگر جگہوں پر موجود یہ ویکسین تیزی سے فروخت ہوئیں۔ مگر چند روز بعد یہ اقدام ڈرگس ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے روک دیا گیا۔

پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کے پیش نظر عدالت کی رولنگ کے باوجود کہ عوام کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جائیں، نجی سطح پر ویکسین کی فروخت (سرکاری سرپرستی میں) بحال نہیں ہو سکی۔ درآمد کی جانے والی ویکسین کا مخصوص وقت میں استعمال ضروری ہے۔ یا تو اب تک وہ ایکسپائر ہو چکی ہوں گی، فروخت کر دی گئی ہوں گی یااُن افراد میں تقسیم ہو گئی ہوں گی، جن کی اُن تک رسائی تھی۔ اگر ہم ویکسین کی پرائیویٹ درآمدات پر پابندی لگا دیں، تو عوام کی اضافی ویکسی نیشن کا امکان گھٹ جائے گا۔ اور یہ عمل باقی دنیا کے لیے خطرے کو بڑھا دے گا۔ ساتھ ہی پاکستانیوں کو بیرون ملک کے لیے میسر سفری اجازت کو بھی خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ پاکستان میں ویکسی نیشن مہم کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کردہ بلومبرگ رپورٹ کے مطابق ملک کی 70 فی صد آبادی کو ، موجودہ رفتار سے ویکسین لگنے میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔

کورونا کی تیسری لہر پاکستان پہنچ چکی ہے اور بہ ظاہر لوگ اس ضمن میں لاعلم ہیں۔ 25 اپریل تک ایکٹو کیسوں کی تعداد 795627 تھی، یعنی گزشتہ سات دن میں 11.5 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر اگلے ہفتے تک انفیکشن کی تعداد کم نہیں ہوئی، تو مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہو سکتا ہے۔ بہ ظاہر کیسوں کی تعداد میں کمی کا امکان نہیں۔ یعنی رمضان کے دوسرے حصے، بالخصوص عید پر ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جائے، کویکس کے طریقہ کار کے مطابق جب تک ویکسین کی ترسیل میں تاخیر ہوتی ہے، ایسے افراد کے لیے جو نجی ویکسین افورڈ کر سکتے ہیں، اُن کے لیے یہ اہتمام کیا جانا چاہیے۔

اکرام سہگل

بشکریہ ایکسپریس نیوز

مسئلہ صرف کوویڈ ویکسین کا نہیں

چند ماہ قبل خوشخبری آئی کہ سرکارِ عالی نے کوویڈ ویکسین کی خریداری کے لیے ڈیڑھ ارب روپے کی رقم مختص کر دی ہے۔ پھر پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت نے قومی اسمبلی میں یہ خبر سنائی کہ عوام کو ویکسین مفت میسر ہو گی۔ پھر خبر آئی کہ حکومت نے نجی شعبے کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ خبر آئی کہ حکومت نے پندرہ فروری سے ملک میں ویکسینیشن پروگرام شروع کر دیا ہے۔ ایک تصویر بھی شایع ہوئی جس میں وزیرِ اعظم عمران خان اور دیگر ایک ہیلتھ ورکر کو چین سے تحفے میں ملنے والی پانچ لاکھ ویکسینز کی پہلی ڈوز لگتے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک تو فلم بہترین چل رہی تھی۔ لیکن ہاف ٹائم کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے کہانی نے اداسی کی جانب موڑ لے لیا۔ اس ضمن میں پہلی اطلاع ملی کہ اگرچہ پہلے مرحلے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ ہیلتھ ورکرز کی پہلی ویکسینیشن ہو چکی ہے۔ مگر چند ہیلتھ ورکرز ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ شائد سوشل میڈیا پر ویکسینیشن کے خلاف طرح طرح کے مفروضاتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں۔

چنانچہ سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو انتباہ جاری کرنا پڑا کہ جو ہیلتھ ورکر ویکسینیشن سے انکار کرے گا اس کی نوکری تیل ہو جائے گی۔ درمیان میں یہ خبر بھی آئی کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی صاحبزادی اور داماد نے کسی ہیلتھ ورکر کا کوڈ نمبر استعمال کرتے ہوئے ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لی اور کسی ستم ظریف نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ چنانچہ محمد زبیر جو کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بڑے بھائی بھی ہیں۔ دونوں کو اپنی اگلی پیڑھی کی اس حرکت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحتی گفتگو کرنا پڑ گئی۔ ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کے بعد حکومت نے عوامی ویکسنیشن کے پہلے مرحلے میں پینسٹھ برس سے اوپر کے بزرگوں کی رجسٹریشن کھولی۔ اس ملک میں پینسٹھ برس سے اوپر کی آبادی لگ بھگ اسی لاکھ ہے۔ مگر ایک ماہ کے دوران صرف ایک لاکھ اسی ہزار بزرگوں نے ہی ویکسینیشن کے لیے رجسٹریشن کروائی۔ صحت کے حلقوں نے اس عدم دلچسپی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔

اور پھر پچھلے ہی ہفتے پہلا متوقع سرکاری یو ٹرن بھی سامنے آ گیا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے روبرو نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکریٹری عامر اشرف خواجہ نے بم پھوڑ دیا کہ حکومت کا اس سال ویکسین خریدنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ ہم صرف عطیے میں ملنے والی کھیپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں چین سے گیارہ ملین ویکسینز کی جو کھیپ آنی تھی اس میں بھی تاخیر ہو گئی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ایگزیکٹوز کے ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے بتایا کہ چین کی کین سائنو ویکسین کی ایک ڈوز کی قیمت تیرہ ڈالر ہے۔ لہٰذا اب ہم بین الاقوامی عطیہ کنندگان اور دوست ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہیلتھ سیکریٹری کے بقول اس برس سات کروڑ آبادی کی ویکسنیشن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی خیراتی اتحاد گیوی کی جانب سے سولہ ملین آسٹرا زنیکا آکسفورڈ ویکسینز کا عطیہ ملے گا۔ اس امداد سے بیس فیصد آبادی کو فائدہ ہو گا۔

یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا تیار کر رہا ہے اور جون تک کھیپ موصول ہو جائے گی۔ پاکستان کی پندرہ فیصد آبادی میں کورونا سے مدافعت کی اینٹی باڈیز صلاحیت پیدا ہو چکی ہے لہٰذا اسے ویکسنیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بقول سیکریٹری ہیلتھ اگر ملک کی سول و فوجی قیادت اپنی ویکسنیشن کرواتے ہوئے تصویر کشی کروا لے تو جن لوگوں کے دل میں ویکسین کے سلسلے میں شکوک و شبہات ہیں وہ خاصی حد تک دور ہو سکتے ہیں۔ سیکریٹری ہیلتھ نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ حکومت نے نجی شعبے کو ویکیسن منگوانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ صاحبِ استطاعت طبقہ اپنے طور پر ویکسینیشن کروا سکے۔ مگر اب تک نجی شعبے سے کوئی سنجیدہ پیش کش سامنے نہیں آئی۔ ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کو رجسٹریشن کے لیے اب تک جو تین درخواستیں موصول ہوئی ہیں وہ نامکمل ہیں۔ ان میں نہ ویکسین کا نام ہے اور نہ ہی قیمت درج کی گئی ہے۔

ایک اور مصیبت کا بھی سامناہے۔ گزشتہ برس مارچ میں جب دنیا میں کوویڈ ویکسین کا وجود بھی نہ تھا۔ ڈی ایچ اے کراچی میں ایک مشکوک ڈاکٹر سید دلدار علی کو کلفٹن پولیس نے جعلی ویکسین بیچنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ گزشتہ ہفتے ہی یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی نے ایک ایسے گروہ کا سراغ لگایا جس نے جعلی آفر لیٹرز کے ذریعے مختلف حکومتی اداروں کو پیشگی رقم کے عوض چودہ ارب یورو مالیت کی ایک ارب ویکیسن ڈوز فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ تاہم فراہمی کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔ اینٹی فراڈ ایجنسی کے بقول اس گروہ میں پیشہ ور مجرم سنڈیکیٹس اور موقع پرست عناصر شامل ہیں جن کا گٹھ جوڑ یورپ سے باہر چین اور مشرقِ بعید تک پھیلا ہوا ہے۔ جب کہ ویکسین ساز کمپنیوں نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اب تک جتنے بھی آرڈر بک کیے ہیں وہ براہ راست حکومتوں اور ذمے دار بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہیں۔ یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی کے مطابق ایک بچولیے ( مڈل مین ) نے اٹلی کی چند ریجنل حکومتوں سے بھی براہ راست رابطہ کر کے ویکسین بیچنے کی پیش کش کی۔

اینٹی فراڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جعلی پیش کش صرف مالی نقصان کا ہی نہیں بلکہ ویکیسنز پر عوامی اعتماد متزلزل ہونے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ انھی خطرات کے پیشِ نظر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے دو روز قبل اقوامِ متحدہ کے تحت انسدادِ جرائم کی چودھویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر ویکسینشن پروگرام کامیاب بنانا ہے تو عالمی برادری کو فراڈ اور جعلی ویکسین کے خطرے کا فوری مشترکہ سدِباب کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ویکسینیشن مہم ارب ہا ڈالر کا معاملہ ہے اور جہاں اتنا پیسہ ہو وہاں جرائم پیشہ گروہوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ خود ویکسینیشن۔ ’’ جب تازہ ہوا کے لیے روشندان اور کھڑکیاں کھلتی ہیں تو مچھر اور مکھیاں بھی گھس آتے ہیں۔اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے‘‘۔ ( ڈینگ ڑاؤ بنگ)

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا ویکسین سے محرومی

وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے صحت (جنہیں وزیر صحت بھی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا درجہ یہی ہے) ڈاکٹر فیصل سلطان نے دو روز پہلے ایک مؤقر انگریزی روزنامے کو بتایا ہے کہ پاکستان نے کووڈ19- ویکسین کی خریداری کے لیے نہ تو کسی کو کوئی آرڈر دیا ہے، نہ ہی کسی دوا ساز ادارے نے اس کی فراہمی کے لیے ہماری کوئی درخواست منظور کی ہے۔ ان کا فرمانا تھا کہ ہم اپنے فرنٹ لائن ورکرز اور دوسروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مذکورہ ویکسین کی پہلی کھیپ حاصل کرنے کی پُرزور (سر توڑ) کوشش کر رہے ہیں، لیکن نہ تو کوئی حتمی آرڈر دیا جا سکا ہے، نہ ہی کسی نے اسے قبول کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اِس انکشاف سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر معاملات کس رفتار سے چل رہے ہیں۔ دُنیا مریخ پر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے، ایک منٹ میں میلوں کی مسافت طے کی جا رہی ہے، اور ہمارے ایوانوں میں چیونٹی کو آئیڈیل بنا کر توقع کی جا رہی ہے کہ اسے ”برق رفتاری‘‘ سمجھا جائے، اور تمغۂ حسنِ کارکردگی بھی ان سب کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، جو اس کارِ بے خیر میں مصروف ہیں۔

کورونا وائرس نے سال بھر سے دُنیا میں تباہی مچا رکھی ہے، دُنیا بھر کی معیشتوں کو تہ و بالا کر دیا ہے، انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی سر پیٹنے پر مجبور ہیں۔ اس سے بنی نوع انسان کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف ممالک میں ویکسین کی تیاری پر کام شروع ہوا، تو برسوں کا کام مہینوں میں مکمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر لی گئی۔ اِس وقت مختلف ممالک میں مختلف اداروں کی تیار کردہ ویکسین شہریوں کو فراہم کی جا رہی ہے۔ دُنیا میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرنے والی ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دولت مند ممالک تو پیشگی بکنگ کرا ہی رہے تھے، نسبتاً کم وسیلہ ممالک بھی اپنی بساط سے آگے بڑھ کر اس کے حصول کی کوشش میں مصروف رہے تاکہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے سکیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک میں تو برق رفتاری کے ساتھ ٹیکے لگائے جانا ہی تھے، اسرائیل کے وزیراعظم بھی دن کا چین اور رات کی نیند بھولے ہوئے تھے۔ انہوں نے چند روز کے اندر اندر عالمی شہرت یافتہ ویکسین ساز ادارے ”فائزر‘‘ کے چیف ایگزیکٹو کو سترہ بار فون کیا، تاکہ اپنے ملک کے لیے فراہمی کو یقینی بنا سکیں۔

لندن کے ایک اخبار کے مطابق انہوں نے اس ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 45 پونڈ ادا کی ہے، جبکہ برطانیہ نے اسے 30 پونڈ میں حاصل کیا ہے۔ زیادہ قیمت دے کر وہ گاہکوں کی قطار کو توڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں، اور اپنے ملک کے اٹھارہ لاکھ شہریوں کو ٹیکے لگوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ تین ہفتے کے اندر ممکن بنایا گیا۔ اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نومبر کے وسط تک اسرائیل نے کوئی بکنگ نہیں کرائی تھی، لیکن جب فائزر کی ویکسین کی دھوم مچی تو اس کے وزیراعظم حرکت میں آئے، اور اپنے ہاتھ رنگنے میں کامیاب ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے گزشتہ سال کے آخری مہینے کی 13 تاریخ کو برطانوی دوا ساز ادارے آکسفورڈ کی تین کروڑ ویکسین کی خریداری کیلئے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ یہ ویکسین بھارت کے سیرم انسٹیٹیوٹ میں بھی تیار ہو رہی ہے۔ پچاس پچاس لاکھ کی چھ قسطوں میں اسے بنگلہ دیش کو فراہم کیا جانا تھا۔ اس معاہدے سے ایک ماہ پہلے، یعنی نومبر 2020ء کے دوران میں آکسفورڈ (یا اسٹرا زینیکا) ویکسین کی فراہمی کے لیے بنگلہ دیش کی ایک دوا ساز کمپنی اپنی حکومت کے ساتھ مل کر مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کر چکی تھی۔

اب آئیے بھارت کی طرف، آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ اسٹرا زینیکا ویکسین ایک معاہدے کے تحت سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا بھی تیار کر رہا ہے۔ بھارت اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کیلئے یہاں ایک ارب خوراکیں تیار کی جائیں گی۔ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد اسے برآمد کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے بائیوٹیک نامی ادارے نے اپنی ویکسین بھی تیار کر لی ہے۔ اس بارے میں بعض بھارتی حلقے بے اطمینانی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین بھی محفوظ اور موثر پائی گئی ہے۔ بھارت نے اپنے تیس کروڑ شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس پر تیز رفتاری سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دُنیا کے کئی دیگر ترقی پذیر اور کم وسیلہ ملک بھی تیز رفتاری سے ویکسین حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کی طرف دیکھئے، اور اپنے احوال پر نظر کیجیے۔ ہمارے وزیراعظم دن رات کورونا وائرس کے مقابلے میں بھارتی حکومت کی بے تدبیریوں کی نشاندہی کر کے، اس کا مذاق اڑاتے رہے۔

بنگلہ دیش کو تو کسی شمار قطار ہی میں نہیں سمجھا جاتا، لیکن ویکسین کی تیاری اور فراہمی میں ان دونوں ممالک کی کارکردگی ہمارے اربابِ اختیار کا منہ چڑا رہی ہے۔ ویکسین کے حصول میں جس سست روی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی کوئی نظیر ہماری تاریخ میں تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کئی آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلا ہے، جنگ ہو، زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کسی بیماری کا حملہ، پاکستانیوں کے ہاتھ پائوں پھولے ہیں، نہ ہماری حکومتوں نے بے چارگی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی دیوانہ وار جدوجہد کی گئی، اور ہوائوں کا رخ موڑا گیا۔ چند ہی سال پہلے ڈینگی نے جس طرح پاکستان کے بڑے حصے، بالخصوص پنجاب پر حملہ کیا تھا، اس وقت اس کی تباہ کاریاں دیدنی تھیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھر رہے تھے، اور ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس آفت کا مقابلہ کس طرح کریں، اس کے علاج کا کسی کو تجربہ تھا، نہ اس مرض کی نوعیت سمجھ میں آ رہی تھی۔ خاص قسم کے مچھروں سے پھیلنے والی یہ وبا سینکڑوں افراد کو نگل گئی تھی، لیکن پنجاب میں جس طرح اس کا مقابلہ کیا گیا اس نے دُنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دی۔

بیرونِ ملک سے ڈاکٹر منگوائے گئے، جنہوں نے ہمارے معالجین کی رہنمائی کی۔ ان کے ساتھ تبادلہ خیال کے ذریعے موثر حکمتِ عملی بنانے میں فیصلہ کن مدد ملی۔ مچھر کی افزائش کے لیے محفوظ سمجھے جانے والی جگہوں کو صاف کیا گیا، اور ہر وہ گوشہ تلاش کیا گیا، جہاں پر مچھر جنم لیتا، اور پرورش پاتا تھا۔ مسلسل 94 روز تک وزیراعلیٰ پنجاب صبح 6 بجے اُٹھ کر انتظامی افسروں اور عوامی نمائندوں کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے۔ عام طور پر 40 افسران اعلیٰ اور اتنے ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان حاضر ہوتے تھے، اور صوبے میں کیے جانے والے اقدامات اور ان کے اثرات کی تفصیل زیر بحث آتی تھی۔ قائد حزبِ اختلاف کے طور پر ان کا استحقاق تھا کہ وہ این سی او سی کا حصہ بنتے، لیکن انہیں حوالہ زنداں کرکے خدا معلوم کس کے جذبۂ انتقام کی تسکین کی گئی۔ کس کا ماتم کیجیے، اور کس کا منہ نوچیے کہ آج کے عالی دماغ ابھی تک کورونا ویکسین کے حصول کے معاملے پر غور کرنے کی کوشش کا آغاز کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؎

دو ہچکیوں میں ہو گیا بیمارِ غم تمام
دِل دیکھتے رہے وہ جگر دیکھتے رہے

اسے کم ہمتی کہیے، بے تدبیری، سستی یا بدذوقی، یا فیصلہ سازی کا فقدان، اس محرومی کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی، اور بالآخر ان کو بھگتنا پڑے گا، جو کچھ دیکھنے کو تیار ہیں، نہ سننے، نہ کرنے کو، این سی او سی نے وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکسی کا مظاہرہ کیا تھا، اور داد وصول کی تھی، خدا معلوم اسے کس کی نظر لگ گئی۔

مجیب الرحمان شامی

بشکریہ دنیا نیوز

کرونا سے حاصل ہونے والی مثبت چیزیں

کرونا نے جہاں اربوں لوگوں کی زندگیاں متاثر کیں، وہیں اس کی وجہ سے چند مثبت تبدیلیاں بھی آئیں۔ وہ مثبت تبدیلیاں کیا تھیں؟

صفائی اور پاکیزگی کا اہتمام
طبی ماہرین نے شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کا سب سے عمدہ طریقہ صابن سے بار بار ہاتھ دھونا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاتھ دھونے اور صفائی ستھرائی کی عادت سے لوگ دوسرے جراثیم سے بھی محفوظ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال نزلہ، زکام اور دوسرے وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ماسک کا استعمال
کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک کو کار آمد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماسک کے استعمال سے بہت سے جراثیم سے بچا جاسکتا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ماسک دھول مٹی سے بھی محٖفوط رکھتا ہے جس کے باعث سانس کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ماسک نزلہ، زکام سمیت دوسرے بہت سے وائرس سے بچاتا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی میں کمی
کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری دنیا میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ سفری پابندیوں کی وجہ سے ٹرین اور ہوائی جہاز پر پابندی بھی لگی اور ساتھ ساتھ شہری زندگی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ٹھپ ہو گیا۔ لاکھوں گاڑیوں کے کھڑے رہنے سے ماحولیاتی آلودگی میں بڑی حد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ شہر کی فضاؤں میں بھی بہتری محسسوس کی گئی۔

جنگلی حیات کو فائدہ
انسان گھروں میں محصور ہوئے تو جنگلی جانوروں کو پنپنے کا موقع مل گیا اور کئی قسم کے جانور، جو پہلے نہیں دیکھے گئے تھے، انہیں اپنی بلوں اور غاروں سے باہر نکلنے کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں آبادی کے قریب کئی تیندوے دیکھے گئے جو انسانوں کی کثرت کی وجہ سے اپنے غاروں تک محدود تھے۔

کرونا ایس او پیز کے سائے تلے ہونے والی شادیاں
کرونا ایس او پیز کے پہلے مرحلے میں شادیوں پر پابندی تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں اس کی اجازت مل گئی۔ اس اجازت میں ٹائمنگ سب سے خاص تھی، یعنی رات 10 بجے تک شادی کی تقریب کی اجازت دی گئی تھی۔ اس ٹائمنگ کی وجہ سے لوگ بہت جلد فارغ ہو کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں اور دور سے آنے والوں کے لیے بھی آسانی ہوتی ہے۔ یاد رہے پاکستانی کلچر اور بالخصوص کراچی میں شادیاں صبح تین بجے سے پہلے ختم نہیں ہوتیں جس کے باعث لوگوں کو گھر پہنچنے اور صبح آفس جانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔

ایس او پیز والی شادی کا ایس او پیز والا کھانا
دوسرے مرحلے میں شادی کے کھانے پر بھی مختلف قسم کی پابندی تھیں۔ اس میں بوفے کی اجازت نہیں تھی البتہ ٹیبل پر کھانا سروو کرنے کی اجازت تھی جس کی بنا پر شادی کا کھانا مہمانوں کو میزوں پر ہی سرو کیا جانے لگا۔ اس وجہ سے لوگوں نے کھانا پلیٹوں میں بھرا نہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق پلیٹوں میں نکالا اور اچھی طرح مکمل کھانا تناول فرمایا۔ نتیجاتاً کھانا ضائع ہونے سے بچا اور رزق کی بے حرمتی میں بھی کمی آئی۔

مارکیٹ ٹائمنگ
کرونا نے پوری دنیا کی معیشت کا پہیہ جام کر ڈالا، جس کی بڑی وجہ بازاروں کا بند رہنا تھا لیکن دوسرے مرحلے میں جب لاک ڈاؤن کا سلسلہ کچھ نرم ہوا تو مارکیٹ کو بھی صبح سے رات آٹھ بجے تک کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس ٹائمنگ کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو گھر والوں کے ساتھ وقت گزرنے کا موقع ملا۔ ساتھ ساتھ بجلی کی بچت بھی ہوئی اور بازار جلد کھلنے کی وجہ سے لوگ علی الصبح بیدار ہونے لگے جس کے بنا پر وقت کی قدر و قیمت کا احساس ہوا۔ یہ چند بنیادی اور مثبت تبدیلیاں تھیں جو کرونا کے دور میں آئیں۔ کرونا تو وقت کے ساتھ چلا ہی جائے گا مگر یہ مثبت تبدیلیاں اگر قائم رہیں تو معاشرتی طور پر ہمیں اس کا فائدہ پہنچے گا۔

مدثر مہدی

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

کورونا کی نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیلنے والی ہے، تحقیق

برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے مگر اس بیماری کی شدت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ خیال رہے کہ اس نی قسم کو دسمبر کے شروع میں دریافت کیا گیا تھا، تاہم حکام کے مطابق برطانیہ میں یہ ستمبر سے پھیل رہی تھی۔ اب پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی اس نئی قسم پر تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ یہ وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا نہیں۔ تحقیق کے لیے اس نئی قسم سے متاثر 1769 مریضوں کا موازنہ وائرس کی دوسری قسم کے شکار اتنے ہی افراد سے کیا۔ دونوں گروپس کی عمریں ملتی جلتی تھیں۔ تحقیق کے دوران 42 مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جن میں 16 کا تعلق نئی قسم والے گروپ سے تھا جبکہ 26 دوسرے گروپ کے مریض تھے۔

تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ فرق اتنا بڑا نہیں جو کسی نمایاں فرق کی جانب سے اشارہ کرتا ہو۔ محققین نے یہ بھی دیکھا کہ بیماری کی تشخیص کے 28 دن بعد تک بیمار رہنے والوں میں اموات کی شرح زیادہ تھی۔ نئی قسم والے گروپ کے 12 اور دوسرے گروپ کے 10 افراد اس بیماری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، یہ فرق بھی اعدادوشمار کے لحاظ سے نمایاں نہیں تھا۔ تحقیق میں تصدیق کی گئی کہ یہ نئی قسم زیادہ پھیل سکتی ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ اس نئی قسم کے شکار مریضوں کے رابطے میں آنے والے 15 فیصد افراد بھی کووڈ 19 سے متاثر ہوئے، جبکہ دوسرے گروپ میں یہ شرح صرف 9 فیصد تھی۔ اگرچہ یہ اچھی خبر ہے کہ یہ نئی قسم سنگین بیماری کا باعث نہیں بنتی مگر اس کا تیزی سے پھیلنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ برطانیہ میں اس قسم کے نتیجے میں کووڈ 19 کے کیسز کی شرح بڑھ گئی ہے۔

یہ نئی قسم یورپ، مشرق وسطیٰ، ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے مختلف حصوں میں پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں بھی اس نئی قسم کے اولین کیسز کی تصدیق ہوئی۔ اس نئی قسم کے زیادہ تر کیسز برطانیہ کا سفر کر کے مختلف ممالک آنے والے افراد میں سامنے آئے ہیں۔ وائرسز میں میوٹیشنز ہوتی رہتی ہیں اور کورونا وائرسز میں بھی متعدد میوٹیشنز کو رواں برس کے دوران دریافت کیا جا چکا ہے، مگر وہ معمولی تبدیلیاں تھیں۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ میں وائرس کی جو نئی قسم دریافت ہوئی اس میں 23 میوٹیشنز دریافت ہوئی، جن سے اس کے پھیلاؤ کے افعال میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے برطانوی محققین کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ نئی قسم 56 فیصد زیادہ متعدی ہو سکتی ہے، مگر ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ نئی قسم بیماری کی شدت سنگین بنانے کا باعث بن رہی ہے۔ ویکسین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ 19 ویکسینز اس نئی قسم کو بلاک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز

کورونا ٹیسٹ کیوں کروانا چاہیے؟

کورونا کی جس دوسری لہر کے بارے میں گزشتہ کئی مہینوں سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اسے ہم سب اب دیکھ رہے ہیں۔ روزانہ سامنے آنے والے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی ہسپتالوں میں مزید مریضوں کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے۔ موسمی حالات کے پیش نظر کورونا کی موجودہ لہر کو زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے جس میں مرض کے پھیلاؤ کی شرح کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ کورونا کی عام علامات سانس لینے میں دشواری، کھانسی اور بخارسے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اس کی تشخیص کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ معتبر اور زیادہ کیے جانے والا ٹیسٹ پی سی آر ٹیسٹ ہے جس میں کورونا کے مشتبہ مریض کے ناک یا حلق کے ذریعے نمونہ لیا جاتا ہے اور وائرس کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق کی جاتی ہے۔

دنیا بھر اور پاکستان میں سب سے زیادہ یہی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے تاہم نتائج اور حساسیت کے اعتبار سے پی سی آر ٹیسٹ کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی زیادہ قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ عام مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کسی شخص میں کورونا کی علامتیں موجود ہونے کے باوجود اگر اسے PCR ٹیسٹ کروانے کا کہا جائے تو اکثر و بیشتر مریض یہ ٹیسٹ کروانے سے انکار کر دیتے ہیں یا پس و پیش سے کام لیتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

 ۔علامتیں معمولی ہونا، 2۔ صحت میں بہتری، 3۔ پابندیوں کا خوف، 4۔ مالی استطاعت نہ ہونا، 5۔ کورونا کے وجود سے انکار
اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٹیسٹ کی مجموعی تعداد کم ہونے کے باعث مریضوں میں اس کی تشخیص نہیں ہو پاتی اور اس کا پھیلاؤ مسلسل ہوتا رہتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ٹیسٹ کروانا ضروری کیوں ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ کورونا مہلک نہ ہونے کے باوجود بہت تیزی کے ساتھ پھیلنے والی بیماری ہے جو متاثرہ شخص کی کھانسی اور سانس کے ذریعے دوسروں میں پھیلتی ہے۔ کئی لوگ جن میں قوت مدافعت مضبوط ہونے کے باعث اس کی علامات ظاہر نہ بھی ہوں تو وہ بھی اس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس بناء پر کورونا ٹیسٹ کروانے کی اہمیت زیادہ ہے تاکہ اگر کسی فرد میں یہ وائرس موجود ہے تو وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کے مزید پھیلنے سے روک سکتا ہے۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیسٹ کروانے کا سب سے اہم فائدہ مریض کو بھی ہوتا ہے اور اس سے زیادہ اُس کے اہل خانہ یا اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی میں اس مرض کی تشخیص ہو جائے تو وہ خود کو ایک خاص مدت تک کے لیے دوسروں سے علیحدہ کر لیتا ہے اور اس میں موجود وائرس اس کے اہل خانہ یا آس پاس کے لوگوں کو متاثر نہیں کرتا۔ اس لیے ایسے تمام لوگ جن میں کورونا کی علامات پائی جائیں انہیں فوراً پی سی آر ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ اس وقت یہ ٹیسٹ سرکاری و غیر سرکاری دونوں طرح کی لیبارٹریز میں کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور حکومت کی مختص کردہ لیبارٹریز بشمول کئی رفاعی اداروں کے زیر انتظام لیبارٹریز میں یہ ٹیسٹ بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ بہت سے لیبارٹریز ایسی بھی ہیں جو گھر پر ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔

اینٹی باڈی ٹیسٹ کو کورونا کی تشخیص کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ:
۔ اینٹی باڈی ٹیسٹ بیماری کے ابتدائی دس سے پندرہ دن کے اندر مثبت نہیں آتا، چنانچہ اس عرصہ میں اگر کورونا کا مریض بھی یہ ٹیسٹ کروائے تو اس میں وائرس منفی ہوتا ہے۔
۔ اینٹی باڈی ٹیسٹ جسم میں قوت مدافعت ظاہر کرتا ہے، بیمار کرنے والا نہیں بتاتا۔ جبکہ کورونا کا یہی زاویہ اہم ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کے ذریعے تیزی سے پھیلتا ہے۔
۔ بہت سے کورونا مریضوں میں اینٹی باڈیز نہیں بنتی یا ان کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

اس لیے کورونا کی تشخیص کے لیے پی سی آر ٹیسٹ ضروری ہے اور وہی کروانا چاہیے۔ البتہ یاد رہے کہ پی سی آر ٹیسٹ میں بھی بیس سے تیس فیصد مریضوں میں کورونا منفی بھی آسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مریض میں علامتیں مشتبہ ہوں تو بہت سے ڈاکٹرز احتیاط کی بنا پر آئیسولیشن کا مشورہ دیتے ہیں جسے ماننا چاہیے۔ آج کل چونکہ سردی کے باعث نزلہ زکام اور کھانسی وغیرہ زیادہ عام ہو گئی ہیں اور یہ وہ علامات ہیں جو کورونا سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ اس بناء پر کورونا کا ٹیسٹ کروا لینا زیادہ ضروری ہے تاکہ ہر دو صورتوں میں ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکیں اور اس مرض کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

 پروفیسر سہیل اختر، انڈس ہسپتال کراچی میں بطور ماہر امراضِ سینہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اورپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔

پروفیسر سہیل اختر

بشکریہ ایکسپریس نیوز