امریکہ میں سپیشل فورسز کا بانی کون تھا ؟

نت نئی اقسا م کی فورسز تربیت حاصل کرنے کے بعد امریکی فوج کا حصہ بنائی جارہی ہیں۔ ان کے پیچھے جدید ترین ہتھیاروں کے ذخائر ہیں جو مختلف معاہدوں کے باوجود کم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ لیکن آج ہم آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کرواتے ہیں۔ جسے تاریخ میں امریکہ کی ”سپیشل فورسز‘‘ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کی تین اہم اقسام کی فوجیں 1950ء کی دہائی کے بعد بننا شروع ہوئیں، ایک نام ”ڈیلٹا فورس‘‘ ہے، دوسری ”گرین بیرٹس ‘‘کہلاتی ہے اور تیسری ”فورس سیل‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ہم آج ان کے بانی کی بات کریں گے ۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر ہتھیار نہیں بھی ہوں تو بھی مہارت کی بدولت جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ یہ شخص رابرٹ راجرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی نے کنفیڈریٹس کی بالادستی کے لیے تربیت یافتہ جوانوں کی ایک فوج ترتیب دی، صنعت کاروں کا سرمایہ اسے توانائی مہیا کر رہا تھا۔ اس جنگ کو ”کنفیڈریشن کی لڑائی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

رابرٹ راجرز 1731ء میں پیدا ہوا۔ وہ سکاٹ آئرش النسل تھا۔ اس نے شہر میتھو ین میں آنکھ کھولی۔ مگر اس کی ”پرورش‘‘ نیو ہیمپشائر کے ایک محاذ پر ہوئی جہاں اس کے والد تعینات تھے۔ 24 سالہ رابرٹ راجرز انتہائی طاقتور اور گٹھے ہوئے جسم کا مالک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ راجرز 6 فٹ قامت کا فوجی جوان تھا۔ اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے علاقہ بھر میں اس کی شناخت تھی۔ راجرز ایک بہترین تربیت یافتہ سکائوٹ ہی نہ تھا بلکہ وہ ٹرینر بھی تھا۔ اسی صلاحیت کی بنا پر برطانیہ نے اسے کمیشن کی پیش کش کی اور 60 جوانوں پر مشتمل کمپنی قائم کرنے کے لیے کمیشن کی پیش کش کی۔ رینجرز کا مطلب تھا کہ ایسے سپاہی جو کسی بھی ملک کی دوردراز سرحدوں میں گھس سکیں۔ اس نئی تربیت یافتہ فورس میں فرانس کے حامی انڈین دیہات میں کئی حملے کیے اور کئی بڑی فرانسیسی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ راجرز بہروپ بدلنے کا ماہر تھا۔ کسی بھی نا مساعد صورتحال میں وہ اپنا رنگ و روپ بدل لیتا اگلے پانچ برسوں تک راجرز اور اس کی رینجرز نے مزید 8 یا 9 مختلف حامل کی کمپنیاں قائم کیں۔

راجرز کا تعلق امریکہ سے تھا مگر وہ برطانوی اور فرانسیسی آباد کاروں سے اچھی طرح آشنا تھا، آباد کار بھی اس سے واقف تھے۔ یہ علاقہ بے آب و گیا صحرائوں پر مشتمل تھا ۔ پہاڑی چوٹیاں تھی اور وادیاں بھی۔ دریا اور چشمے بھی تھے اور ان میں پر پیچ راستے بھی۔ راجرز کی خدمات یہ نہیں کہ اس نے انقلاب میں کیا کردار ادا کیا، بلکہ میجر راجرز کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے 6 سو جوانوں کو حملہ کرنے کی تربیت دی۔ شمالی امریکہ برطانیہ خصوصی تربیت سے بخوبی واقف تھا۔ 1755ء میں فرانسیسی نیو یارک میں طاقت میں تھے اور جنوب کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ جنرل ایڈور گرے ڈاک شمالی امریکہ میں کمانڈر تھے انہوں نے نیو انگلینڈ کے 5 ہزار سپاہیوں کو بھی ساتھ ملا لیا اور فورتھ سینٹ فریڈرک کی جانب بڑھنے لگے۔ یہ علاقہ لیک آف چمپلین کے آخری کونے میں واقع ہے۔

جنوب میں برطانوی آبادکاروں کی یہ آخری چوکی ہوا کرتی تھی اس مہم کے کمانڈر جنر ل ویلیم تھے اس کو دشمن کی نقل و حمل اور ہر طرح کی معلومات تھی، کہاں کہاں قلعہ بندی کی گئی فوجی سازو سامان کتنا ہے کیا نقصان کر سکتے ہیں مگر ان کے اپنے تمام سکائوٹس مارے جا چکے تھے یا پھر دشمن کی قید میں تھے۔ جو باقی بچے وہ کوئی معلومات حاصل کرنے میں ناکا م رہے۔ نیو ہیمپشائر کے کمانڈر کے پاس ان تمام مسائل کا حل تھا۔ اس کی رگوں میں برف جیسا ٹھنڈا خون دوڑتا تھا یعنی اس کے دل میں رحم نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہ اس کا پہلا لانگ رینج جاسوسی کا مشن تھا۔ راجرز نے اس سلسلہ میں 2 لوگوں کو اپنے ساتھ لیا۔ اور دشمن کی صفوں میں دور تک گھس گیا ، وہ 9 روز تک دشمن کی صفوں میں شامل رہا۔ اس نے بار بار دشمن کی صفوں میں شامل ہو کے فرنچ انڈین کی گشت کا اچھی طرح بار بار ملاحظہ کیا۔ کئی مرتبہ اس نے فورتھ ویلیم ہینڈری میں اپنے کمانڈر سے رابطہ کیا اور فرانسیسیوں کی دفاعی حکمت عملی کے بارے میں باریک سے باریک بات ان کے کانوں تک پہنچا دی۔

اس نے دشمن کی عسکری حیثیت اور منصوبہ بندی کی ایک ایک بات سے اپنے کمانڈر کو آگاہ کیا۔ اس وقت راجرز کو 50 سپاہیوں کے ساتھ ایک اور ٹاسک دیا گیا ، وہ ایک مرتبہ پھر اپنے مٹھی بھر جوانوں کے ساتھ فرانسیسی صفوں میں گہرائی تک گھس گیا۔ اس نے فورتھ فیڈرک اور فورتھ کیری لون کا بغور جائزہ لیا۔ اس نے بتایا کہ یہ قلعہ فریڈرک کے جنوب میں 16 میل کے فاصلے پر لیٹ جارج کے ایک سرے پر واقع ہے۔ اپنے مشن کی تکمیل کے دوران ناصرف وہ دشمن کی صفوں میں گھسا رہا بلکہ فرانسیسیوں اور ریڈ انڈینز کو بھی قیدی بناتا رہا۔ اس نے کئی قیدیوں کو حراست میں لے کر برطانوی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا۔ بعد میں برطانوی افسروں نے ان گرفتار فوجیوں سے مزید معلومات حاصل کر لیں۔  راجرز آئی لینڈ اسی کے نام سے رکھا گیا۔ دریائے حرسن کے بالائی حصے پر اسی جگہ اس نے اپنا تربیتی کیمپ قائم کیا تھا۔ اس کا کام معلومات چرانا اور دشمنوں کی صف میں گھسنا اور ہر قسم کی معلومات مہیا کرنا تھا۔

اس نے انڈینز کی جنگی حکمت عملی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ 18ویں صدی کی روایتی جنگوں میں اس کی رینجرز نے انتہائی کامیاب مشن مکمل کیے۔ 1757ء میں راجرز نے 75 افراد کے ساتھ قلعہ فیڈرک اور قلعہ کیری لون کی جانب جانے والے فرانسیسی قافلے پر حملہ کیا۔ ایک مرتبہ پھر وہ متعدد فوجیوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہا۔ مگرواپسی پر دگنی طاقت کے ساتھ فرانسیسیوں نے اس پر حملہ کر دیا، بلا کی پھرتی کا حامل ہونے کے باعث بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اس نے دن بھر فرانسیسی سپاہیوں کو جنگ میں الجھائے رکھا اور رات کی تاریکی میں اس کا محاصرہ توڑ کر اپنی منزل کی جانب پلٹ گیا۔ اس جنگ میں رینجرز کے سپاہی مارے گئے اور 12 زخمی ہوئے۔ فرانسیسیوں کا نقصان اس سے دگنا تھا، متعدد فرانسیسی راجرز کی قید میں تھے۔ ذرا موسم خوشگوار ہوا تو راجرز نے مزید بھرتیا ں کر لیں، اس نے جدید انداز میں کشتیاں بنائیں اور ہر کشتی پر 10 ماہر تعینات کیے ۔

انہیں ”Seal‘‘ کا نام دیا۔ یہ نام بعد ازاں امریکہ کی تربیت یافتہ فوج کا بھی پڑ گیا۔ان کا کام فرانسیسی فوجوں کی سپلائی لائن کو کاٹنا تھا۔ پہ پرپیچ پہاڑوں میں بھی کشتیاں دوڑانے کے ماہر تھے، کچھ تو 6 ،6 میل تک پیدل سفر کر لیتے تھے۔ اس نے ثابت کیا کہ تربیت یافتہ فوج بے سرو سامانی کی حالت میں بھی فتوحات کے جھنڈے گاڑ سکتی ہے۔ امریکی فوج میں انہی اصولوں کو سب سے پہلے پڑھایا جاتا ہے۔ جارجیا میں قائم امریکی فوج کا رینجر سکول اس کے نصاب کے مطابق تربیت دیتا ہے۔ اس کا اولین نقطہ یہ ہے کہ دشمن کے اڈے پر حملہ کرنے کے بعد واپسی کا راستہ بدل لو۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ دریا پار کرتے وقت دشمن کی سرحدوں میں داخل ہونے کے لیے عام راستے ہرگز استعمال نہ کیے جائیں۔

دشمن کی فوجیں زیادہ ہونے کی صورت میں ان کے بکھرنے کا انتظار کیا جائے اور خود بھی منتشر ہو جائو، مختلف راستوں سے رابطے بڑھانے کا انتظار کرو۔ اگر آپ تعداد میں کم ہیں تو حملے کے لیے رات کے اندھیرے پھیلنے کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ رات کی تاریکی میں واپسی کا سفر بھی آسان رہتا ہے۔ راجر ز 1768ء میں مانٹریاٹ سے برطانیہ واپس پہنچا۔ اسے جارج واشنگٹن نے خدمات کے لیے کئی پیشکشیں کیں مگر کانٹی نینٹل فوج نے اسے ایک جاسوس سمجھا چنانچہ وہ فلڈلفیا کے قریب گرفتار ہو گیا مگر اپنی تربیت کی وجہ سے فرار ہو گیا۔ برطانیہ نے اس کے نام پر بٹالین قائم کی۔ برطانوی فوج سے ملنے والی تھوڑی سی پنشن پر اس نے اپنی موت تک گزارا کیا۔ لندن میں 18 مئی 17 میں خبر شائع ہوئی لیفٹیننٹ کرنل جو جمعرات میں ورو میں مر گیا تھا۔ آخری ایام انتہائی کسمپرسی میں گزرے اس کے جنازے میں محض 2 افراد ماتم کناں تھے۔

انجینئر رحمی ٰ فیصل

بشکریہ دنیا نیوز