ویکسینیشن کا کورونا متاثرین پر کیا اثر ہوتا ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی ویکسی نیشن وائرس سے متاثرہ لوگوں میں قدرتی مدافعت بڑھا دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ تبدیل شدہ شکل کی حامل کورونا وائرس سے بھی انھیں ممکنہ طور پر محفوظ رکھتی ہے۔ امریکا کی راک فیلیئر یونیورسٹی کے محققین نے کورونا سے متاثرہ مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا تو انھیں ان مالیکیولز کے ارتقا کا اندازہ ہوا جو کہ مریضوں میں ویکسی نیشن کے بعد ڈیولپ ہوئے تھے۔ یہ مالیکیولز مریضوں میں بہتر اور طویل المدتی دفاعی صلاحیت بڑھا دیتی ہے۔ اس تحقیق میں ایسے 63 افراد شامل تھے جو گزشتہ سال موسم بہار میں کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے۔ تاہم اس تحقیق کا ابھی دیگر ماہرین نے جائزہ نہیں لیا ہے۔

ان افراد کے فالو اپ ڈیٹا سے وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ انکے امیون سسٹم کے میموری بی سیل نے جو اینٹی باڈیز پیدا کیے وہ سارس کوویڈ 2 (جو کہ کورونا وائرس کا سبب بنتا ہے) کو نیوٹرالائز کرنے میں زیادہ بہتر ہو گئے تھے۔ محققین نے اس گروپ میں شامل 26 افراد جنھیں موڈرنا یا فائزر ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگ چکی تھی، ان میں اینٹی باڈیز مزید بڑھ چکے تھے۔ اور ان میں موجود مدافعتی نظام وائرس کے تبدیل شدہ شکل (یوکے، جنوبی افریقہ اور نیویارک ویری اینٹ) کے خلاف بھی غیر معمولی طور پر مزاحمت کا حامل ہو چکا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پولیو ویکسین جو ہر سال تیس لاکھ زندگیاں بچاتی ہے

پولیو میلائٹس، جسے پولیو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، معذور کرنے والی بیماری ہے جو مکمل طور پر پوری دنیا میں لاعلاج ہے، آج تک دنیا کو اس وائرس سے بچاؤ کے لیے صرف 2 ویکسینز میسر ہیں جو اورل پولیو ویکسینز (او پی ویز) اور ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینز (آئی پی ویز) ہیں۔ اگرچہ کچھ مثبت کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن دیگر میں بخار، پیٹ میں درد، گلے میں سوزش، متلی، گردن کا اکڑ جانا اور سردرد جیسی علامات رپورٹ ہوتی ہیں۔ یہ بیماری آلودہ پانی کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں بھی منتقل ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ہر سال، حفاظتی ٹیکوں (امیونائزیشن) کی مہم 5 سال سے کم عمر کے 30 لاکھ بچوں کو اس مرض کا شکار ہو کر مرنے سے بچانے میں مدد دیتی ہے جو ہڈیوں کی خرابی کی وجہ بنتا ہے۔

وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟
زندہ پولیو وائرس انسانی جسم میں سب سے پہلے آنتوں میں اپنے خلیوں کو بڑھا کر حملہ کرتا ہے، پھر یہ خون کے ذریعے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی تک پہنچ جاتا ہے۔ پولیو وائرس، فالج کا سبب ہو سکتا ہے اگر یہ وائرس اعصابی نظام تک پہنچنے اور اس پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو اس مرض سے مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے، 1950 کی دہائی میں 2 ویکسینز تیار اور فراہم کی گئیں؛ یہ عام طور پر ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینز (آئی پی وی) اور اورل پولیو ویکسین (او پی وی) کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ دریافت کے بعد سے، اورل پولیو ویکسین، جو سستی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے، یہ منہ کے ذریعے مائع قطروں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہے جبکہ ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسین، جو اب امریکا میں استعمال ہونے والی واحد ویکسین ہے، شوٹس کی سیریز کی صورت میں دی جاتی ہے۔

پولیو ویکسین حقیقت میں کس سے بنی ہے؟
سنہ 1950 کی دہائی کے اوائل میں ڈاکٹر جونس سالک  اور ڈاکٹر البرٹ سیبن کے ہاتھوں ویکسین کی دریافت ایک قابل ذکر پیش رفت تھی۔ وبائی امراض کی تاریخ میں اسے ایک معجزاتی سنگ میل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ ویکسینز تقریباً پوری دنیا کو معذور کرنے والے وائرس سے نجات دلانے میں کامیاب رہی تھیں۔ اورل پولیو ویکسین (او پی وی) کو بنانے کے لیے 3 زندہ، کمزور کیے گئے پولیو وائرس سے ایک مرکب بنایا گیا تھا۔ انسانی جسم کو وائرس سے پاک رکھنے کے لیے او پی وی خون میں پولیو وائرس کی تمام تینوں اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز بناتی ہے، جب کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ اعصابی نظام کی حفاظت کرتی ہے اور آنتوں سے منسلک ہو کر ایک مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہیں جو انسانی جسم کے اندر پولیو وائرس کا پہلا اور ترجیح گھر ہوتا ہے۔

او پی وی کا یہ ردعمل اسے انسان سے انسان میں منتقل ہونے والے اس وائلڈ وائرس کو روکنے کا سب سے زیادہ وسیع و تسلیم شدہ حل ہے۔ جبکہ او پی وی کو پولیو وائرس کے حصوں کو کمزور کر کے بنایا گیا تھا، آئی پی وی، یا ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسین میں وائرس کو پاک کیا گیا اور پھر اسے فارم ال ڈی ہائیڈ نامی کیمیکل سے ختم کیا گیا۔ فالج سے بچاؤ کے لیے، ایک آئی پی وی وائلڈ پولیو وائرس آنتوں میں لائننگ کے بجائے وائلڈ پولیو وائرس کو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ حفاظتی ٹیکوں کے دونوں طریقوں نے وسیع پیمانے پر اپنی کامیابی کے باعث دنیا کے اکثر حصوں میں مقبولیت حاصل کی، لیکن عموماً پولیو شوٹس کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان میں مردہ وائرس ہوتا ہے جس میں خود کی نقل بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی، جو اس بیماری سے فالج ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔

وسیع پیمانے پر اس کو ترجیح دینے کی وجہ ویکسین کے مضر اثرات کو صفر تک کم کرنے میں اورل ویکسین کی ناکامی کی وجہ ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ویکسین لگوانے والے ہر 24 لاکھ افراد میں سے ایک میں، او پی وی میں موجود کمزور وائرس، فالج کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم دنیا بھر کے کئی ممالک او پی وی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ نسبتاً سستی، استعمال میں آسان اور قوت مدافعت کو برقرار رکھنے میں اچھی ہے۔ امریکا سے باہر ترقی پذیر ممالک میں بڑے پیمانے پر آئی پی ویز کا استعمال مشکل رہا ہے کیونکہ ویکسین کی زیادہ لاگت کے ساتھ پیداوار کے لیے بائیو کنٹینمنٹ کی یقین دہانی کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ پولیو وائرس لاکھوں سالوں سے انسانوں پر حملہ کرتا رہا ہے، ہڈیوں کی خرابی کی وجہ بننے والی بیماری کے شواہد 1400 میں مصری نقش و نگار میں موجود ہیں جو پولیو کی موجودگی کی جانب اشارہ ہے۔

یہ بیماری 1800 کے وسط سے قبل بڑے پیمانے پر عام نہیں تھی۔ 1900 میں وائلڈ پولیو وائرس نے طاقت حاصل کی اور ایک وبا میں تبدیل ہو گیا۔ حالیہ دنوں میں، سن 2000 کے بعد، پولیو ایک بیماری بن گیا ہے جس کی جڑیں پاکستان اور افغانستان میں اب بھی موجود ہیں، جہاں فعال کیسز کی بڑی تعداد رپورٹ ہوتی ہے کیونکہ ویکسینیشن کی مہمات کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ملک بھر میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم چلائی جارہی ہے جس کا مقصد رواں برس 4 کروڑ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا ہے، جن میں سے 130 اضلاع میں 3 کروڑ 20 لاکھ کے قریب بچوں کو کامیابی سے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز

ویکسین کی تاریخ : وہ سب کچھ جو جاننا ضروری ہے

٭ خون کے سفید خلیے جو انسان کے نظام مدافعت کا حصہ ہیں، وہ ان وائرس اور بیکٹیریا کو یاد رکھتے ہیں جن سے ان کا واسطہ پڑ چکا ہوتا ہے۔ ویکسینیشن میں اس خاصیت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور انہیں کمزور جرثوموں سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد جسمانی قوت مدافعت اصل جرثوموں سے لڑنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فوجی مشقوں کی طرح ہوتا ہے، ان کی مدد سے فوج حقیقی لڑائی میں بہتر طور پر لڑنے کے قابل ہوتی ہے۔

٭ 2010ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں کالی کھانسی وبائی صورت اختیار کر گئی، اس کا جزوی سبب والدین کا بچوں کی ویکسینیشن سے انکار تھا۔

٭ ہیپاٹائٹس بی اور ایچ پی وی کی ویکسین انسان میں جگر اور سرویکل سرطان کا خطرہ بہت گھٹا دیتی ہے۔

٭ ویکسینیشن طبی علاج کے قدیم ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ یہ اینٹی بائیوٹکس اور انستھیزیا سے بھی قدیم ہے۔

٭ چیچک ایک ایسا مرض ہے جو متعدی ہے اور تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس میں موت کی شرح 30 فیصد ہوتی ہے۔ اسی سے نپٹنے کے لیے ویکسینیشن کا پہلا جدید طریقہ متعارف ہوا۔

٭ مہلک امراض کے خلاف ویکسین دینے کا عمل سب سے پہلے قدیم چین اور ہندوستان میں شروع ہوا۔ اس طریقے کے مطابق چیچک سے بچ جانے والے کا کھرنڈ اتارا جاتا تھا، اسے صحت مند انسان سونگھتا تھا، جس سے اس مرض کی خفیف علامات ظاہر ہوتی تھیں۔ یوں اس میں چیچک کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جاتی تھی۔

٭ اس وقت تقریباً 22 مختلف امراض کی ویکسین موجود ہیں۔

٭ 1967ء میں چیچک سے دنیا میں 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اسے دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں اس مرض کے خاتمے کی مہم چلائی گئی۔ چیچک کا آخری کیس 1977ء میں افریقہ میں سامنے آیا۔ یوں ویکسین کی مدد سے پوری دنیا سے اس مرض کا خاتمہ کر دیا گیا۔

٭ مشرقی ایشیا میں ویکسین کا طریقہ مشرق وسطیٰ کئی سو سال بعد پہنچا۔ 1770ء میں یورپیوں نے اس کا مشاہدہ کیا اور اسے اپنے علاقوں میں متعارف کرایا۔

٭ امریکی جنگ آزادی میں جارج واشنگٹن نے حکم دیا تھا کہ انقلابی فوج میں بھرتی ہونے سے قبل ہر ایک کا چیچک کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنا لازمی ہے۔

٭ ویکسینیشن کے بارے میں پہلا قانون برطانیہ نے منظور کیا۔ اس حوالے سے پہلا ایکٹ 1840ء میں منظور ہوا جس کے بعد غربا کو چیچک کی ویکسین مفت فراہم کی گئی۔ 13 برس بعد برطانوی حکومت نے تمام بچوں کی ویکسینیشن لازمی قرار دے دی۔ جن بچوں کے والدین انکار کرتے تھے انہیں جرمانہ یا قید کی سزا ہوتی تھی۔

٭ برطانیہ میں ویکسین کے خلاف پہلی منظم مخالفت ہوئی۔ 1853ء میں ”اینٹی ویکسینیشن لیگ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد دوسری لیگیں بنیں۔ بعض تنظیموں نے دوسرے ملکوں میں بھی اپنے دفاتر قائم کیے جن میں ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی شامل تھا۔

٭ ایڈورڈ جینفر نے ویکسینیشن کی جدید شکل کو 1796ء میں متعارف کرایا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ گوالن میں چیچک کے خلاف قوت مدافعت ہوتی ہے اور وہ اسے چیچک نہیں ہوتی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ گائے میں چیچک کی ایک قسم سے پہنچنے والے اثرات اس میں اس مرض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کردیتے ہیں۔ اس کے بعد جینفر نے کامیابی سے گائے میں کمزور حالت میں چیچک کو بچوں میں قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

٭ اگرچہ ایڈورڈ جینفر کا طریقہ انتہائی مؤثر ثابت ہوا لیکن اسے بہت متنازع بنا دیا گیا۔ شروع میں اس کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ چیچک کی ویکسین سے انسان بالآخر گائے بن جائے گا۔ آج بھی ویکسینیشن کے بارے میں عجیب و غریب دعوے کیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

٭ اگر مناسب وقت پر ایم ایم آر ویکسین دی جائے تو 99 فیصد انسان کن پیڑے، خسرہ اور روبیلا سے محفوظ رہتے ہیں۔

٭ ویکسین دو صورتوں میں ہوتی ہے۔ ایک میں اسی بیماری کے جرثومے کمزور حالت میں ہوتے ہیں، جبکہ دوسری میں مرے ہوئے جرثومے ہوتے ہیں۔ پہلی صورت زیادہ مؤثر ہے لیکن اس ویکسین کو ٹھنڈا رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے دنیا کے بعض حصوں میں، جہاں اسے ٹھنڈا رکھنا ممکن نہ ہو، مرے ہوئے جرثوموں والی ویکسین استعمال کی جاتی ہے۔

٭ تھامس جینفر نے چیچک کو کئی بار اپنے اوپر آزمایا۔

٭ 1942ء میں امریکی فوج کے تین لاکھ 30 ہزار اہلکار ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہو گئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ویکسین کو ہیپاٹائٹس بی کے شکار فرد سے حاصل کیا گیا تھا۔

٭ جن امراض سے ویکسین کے ذریعے بچا جا سکتا ہے، ان میں لاکڑا کاکڑا، خناق، ہیپاٹائٹس بی، ہب ڈیزیز، کن پیڑے، خسرہ، روبیلا، کالی کھانسی، پولیو، روٹا وائرس، چیچک، ٹیٹنس اور انفلوئنزا شامل ہیں۔

ویکسین کے ذیلی اثرات عام طور پر خفیف ہوتے ہیں، ان میں بخار، سردی کا احساس اور ٹیکا لگنے کے مقام سوجن شامل ہیں۔

یسرا خان

بشکریہ دنیا نیوز