کرونا ویکسینز کے بارے میں اہم معلومات جو جاننا ضروری ہیں

پوری دنیا اس وقت کورونا وبا کا شکار ہے۔ وبا ایک ایسی بیماری کو کہا جاتا ہے جو بیک وقت دنیا بھر میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے۔ انسانی تاریخ میں بڑی بڑی وباؤں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیلا جیسے طاعون، چیچک وغیرہ ۔ بالآخر ان کے علاج دریافت ہوئے اور لوگوں کو ان سے تحفظ ملا۔ اسی طرح اس وقت بھی کم و بیش ڈیڑھ سال سے دنیا کو کورونا کی جس وبا کا سامنا ہے، اب اس کا علاج سامنے آچکا ہے اور مختلف اقسام کی ویکسین ٹرائل کے مراحل سے گزرنے کے بعد دنیا بھر میں لوگوں کو دستیاب ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے ہاں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم کورونا ویکسین کے حوالے سے سلگتے ہوئے سوالات کی بھرمار ہے۔ لوگ طرح طرح کے خدشات میں مبتلا ہیں اور افواہوں کا بازار گرم ہے جس سے عام لوگوں میں ویکسین کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ کورونا ویکسین کا کیا فائدہ ہے بالخصوص وبا کی صورت میں اس کا کردار کیوں بڑھ جاتا ہے؟ مختلف امراض میں مبتلا لوگوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کے لیے ویکسین کس قدر محفوظ ہے؟ اس کے سائیڈ ایفکٹس کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کون سی ویکسین زیادہ بہتر ہے؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کورونا سے 100 فیصد تحفظ یقینی ہو جاتا ہے؟ یہ مختلف سوالات ہیں جن کے جوابات ماہرین نے فراہم کیے ہیں۔

٭ ویکسین کا کیا فائدہ ہے اور کسی بھی وبا میں اس کا کردار اتنی اہمیت کیوں اختیار کرتا ہے؟
پروفیسر محمد رفیق کھانانی، صدر انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان کا کہنا ہے: ’’ ویکسین کوئی نئی چیز نہیں ہے، سینکڑوں سالوں سے مختلف وباؤں کو کنٹرول کرنے میں اس کا کردار نہایت کلیدی رہا ہے۔ کون بھی انسان یا دیگر جاندار جب بیمار ہوتے ہیں تو قدرت نے ان کے جسم میں ایسی صلاحیت رکھی ہے جو اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت بناتی ہے۔ یہ قوت مدافعت دوسری دفعہ بیمار ہونے کی صورت میں اس کے کام آتی ہے۔ یہ بیماری کو ہونے نہیں دیتی یا پھر اس کی شدت سے بچاتی ہے۔ یہی فلاسفی ویکسین میں کار فرما ہے کہ بیماری پیدا کرنے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر کے یا تو اس وائرس کا خاتمہ کرتی ہے یا اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتی ہے۔ ‘‘

٭ دیگر امراض مثلاً دمہ، ذیابیطس، بلڈ پریشر، گردہ، دل کے امراض میں مبتلا افراد جو تسلسل سے دوائیں استعمال کر رہے ہوں، کیا یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں ، اسسٹنٹ پروفیسر متعدی امراض، انچارج کووڈ ICU، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کہتے ہیں:’’ پاکستان میں اس وقت چار سے پانچ قسم کی کورونا ویکسین دستیاب ہیں اور تحقیق کے مطابق تمام کی ویکسین ان بیماریوں میں بھی مفید ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے ویکسین کا لگوانا زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ اگر ان امراض میں مبتلا لوگوں کو کورونا انفیکشن ہو گا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہو گا اور ایسے مریضوں کو آکسیجن کی کمی درپیش ہو سکتی ہے یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘

٭ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے بھی کیا کورونا ویکسین محفوظ ہے؟
پروفیسر ندیم رضوی، سابق سربراہ امراض سینہ جناح ہسپتال کا کہنا تھا: ’’حمل ایک نہایت نازک مرحلہ ہوتا ہے جس میں ہم مریضوں کو بہت زیاہ احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض اوقات توخواتین کو ڈسپرین دیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں لیکن یہ ویکسین اس قدر محفوظ ہیں کہ بلاجھجھک لگوائی جا سکتی ہیں۔ ایسے کسی بھی خیال کو دماغ میں جگہ نہیں دینی چاہیے کہ ویکسین لگوانے سے حاملہ خواتین کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔ تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دوران حمل اور بریسٹ فیڈنگ میں ان ویکسین کا کوئی منفی ردعمل نہیں ہے۔‘‘

٭لوگوں میں ویکسین لگوانے کے مضر اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کے بارے میں بہت سے خدشات ہیں۔ عموماً کس طرح کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں؟
پروفیسر سہیل اختر، سربراہ شعبہ پلمانالوجی انڈس ہسپتال، سابق صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’اب تک کی تحقیق اور رپورٹس میں ویکسین سے شدید نوعیت کے مضر اثرات نہ صرف ہماری ہاں بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھے گئے۔ جو عام شکایات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ویکسین کا انجکشن لگنے سے ہلکی سوجن ہو سکتی ہے، بعض کو ہلکا بخار، جسم یا سر میں ہلکا درد ہو سکتا ہے اور یہ بھی 24 گھنٹے کے اندر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے مضر اثرات نہیں ہیں جن کی وجہ سے آپ ویکسین ہی سے انکار کر دیں۔ دوسری جانب یہ وہ بیماری ہے جس نے اب تک دنیا میں 37 لاکھ لوگوں کی جان لے لی ہے۔‘‘

٭ویکسین لگوانے والے کچھ افراد میں کلاٹنگ کی بھی شکایات سامنے آئی ہیں، ان پر کیا کہتے ہیں؟
پروفیسر سہیل اختر کہتے ہیں: ’’ اسٹرازینیکا ویکسین لگوانے کے بعد بعض لوگوں میں کلاٹنگ کی شکایات سامنے آئیں۔ یہ ویکسین سب سے زیادہ برطانیہ میں استعمال ہوئی۔ وہاں پر ہونے و الی تحقیق کے مطابق کلاٹنگ کی شکایت دس لاکھ میں سے صرف 40 لوگوں کو ہوئی۔ یہ اتنا کامن سائیڈ ایفکٹ نہیں ہے۔ تاہم اس ویکسین میں احتیاط کرنی چاہیے کہ 40 سال سے کم عمر کو نہ لگائی جائے یا ایسے افراد جن میں مختلف بیماریوں کے سبب کلوٹنگ کا رجحان ہو مثلا کینسر کے مریض۔ باقی افراد کے لیے اس میں کسی بھی قسم کا کوئی رسک نہیں ہے۔ ‘‘

٭پاکستان میں اس وقت جتنی بھی ویکسینز دستیاب ہیں، ان میں کیا فرق ہے؟ کون سی زیادہ مؤثر اور مفید ہے ؟ ڈاکٹر عاطف حفیظ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا کہنا تھا : ’’اس وقت ہمارے ملک میں دستیاب ویکسینز میں افادیت کی شرح مختلف سٹڈیز میں مختلف ضرور ہے لیکن سب میں یہ بات مشترک ہے کہ کورونا وائرس کی شدت سے بچاتی ہیں۔ جب ہم بیماری کی شدت کا لفظ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی بیماری جس میں ہسپتال میں داخل ہونے، آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ جائے۔ عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان نے جتنی بھی ویکسینز کی منظوری دی ہے وہ سب کی سب یکساں طور پر محفوظ اور مفید ہیں۔

٭عموماً ویکسین کی تیاری میں سالوں کا وقت لگتا ہے، کورونا ویکسین کی بہت جلد تیاری نے بھی اس کے بارے میں شبہات کو جنم دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیق کھانانی کا کہنا تھا: ’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کورونا جس طرح پوری دنیا میں قیامت ڈھا رہا تھا تو اس سے تحفظ فراہم کرنے کی تمام اقدامات میں بھی سرگرمی دکھائی گئی۔ ویکسین بنانے کے تمام عمل میں مروجہ سٹینڈرڈز پر پوری طرح عمل کیا گیا، اس کی منظوری میں عمومی طور پر جو سالوں کی تاخیر ہوتی تھی، اسے تیزی سے مکمل کیا گیا۔ موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کے تمام تر ذرائع کے باعث ٹرائل کے تمام مراحل بھی جلدی طے کرنے میں معاونت حاصل ہوئی۔ دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ ویکسینز دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو لگائی جا چکی ہیں، یہ اس قدر مؤثر ہیں کہ جن ممالک میں یہ زیادہ لگی ہیں ، وہاں زندگی پوری طرح معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔‘‘

٭کیا 2 ڈوزز والی ویکسین میں ہر ڈوز الگ الگ ویکسین کی لگوائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں نے جواب دیا: ’’ ابتدائی انٹرنیشنل گائیڈ لائینز میں کہا گیا تھا کہ اگر کسی ویکسین کی 2 ڈوزز ہیں تو وہ same ویکسین ہی کی لگوائی جائیں لیکن بعد ازاں mix and match سے کافی اچھے نتائج برآمد ہوئے اور تحقیق کے بعد بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں اینٹی باڈی کے لیول بہت اچھے آئے ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں ایسی کوئی قباحت نہیں ہے کہ پہلی ڈوز کے بعد دوسری ڈوز کسی اور ویکسین کی لگوا لی جائے۔ تاہم پورے نظام کو سٹینڈرڈائز کرنے میں تکنیکی اعتبار سے دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے جیسے ویکسی نیشن سرٹیفیکیٹ کے اجراء میں اس کی وضاحت کیسے ہو گی۔ اس تناظر میں کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ہی ویکسین کی دونوں ڈوز لگوائی جائیں‘‘۔

٭اگر انسان کسی وجہ سے دوسری ڈوز نہ لگوا سکے تو کتنے عرصے تک وہ لگوا سکتا ہے؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں کا کہنا ہے: ’’ ویکسین کے درمیان وقفہ کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگر دوسری آپ بروقت نہ بھی لگوا سکیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، جب ممکن ہو لگوا لیں خواہ اس میں تین ماہ یا چھ ماہ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ وہ جب بھی لگے گی تو دوسری ڈوز ہی سمجھی جائے گی اور پہلی ڈوز کی افادیت کم نہیں ہو گی‘‘۔

٭ان باتوں میں کیا حقیقت ہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد دو سال میں مر جائیں گے؛ ویکسین سے DNA بدلے جا رہے ہیں؛ جسم میں چپ داخل کی جا رہی ہے؛ ویکسین لگوانے والوں کو جسم پر مقناطیس چپک رہے ہیں ؟
ڈاکٹر ندیم رضوی ان سب باتوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ’’ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر بالخصوص غلط معلومات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ یہ رویہ ہماری دینی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ عوام کو ایسی باتوں سے دور رہنا چاہیے اور ماہر طب سے ہی مشورہ لینا چاہیے اور اسی کے مشورے کو اہمیت بھی دینی چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر محمد رفیق کھانانی کا کہنا ہے: ’’ دو سال میں مرنے والی وائرل پوسٹ جس سائنس دان سے منسوب کی گئی ہیں انہوں نے ایچ آئی وی ایڈز کا وائرس identitify کیا تھا۔ اسی بناء پر انہیں نوبل انعام بھی ملا تھا۔ میری ان کے ساتھ کئی بار ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے انہیں اس بارے میں ای میل کی تو انہوں نے اس کی تردید کی اور بتایا کہ وہ اس بارے میں انٹرنیشنل میڈیا میں بھی تردید کر چکے ہیں۔ ان کا مؤقف بھی یہی ہے کہ ویکسی نیشن کے بغیر کسی بھی وبا کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

٭کورونا کا کیا مستقبل ہے؟ کیا یہ اپنی موت آپ مر جائے گا ؟ دنیا امیونٹی لیول حاصل کر لے گی یا کچھ سال بعد ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی ضرورت پڑے گی؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں کا کہنا ہے:’’ کورونا کے خلاف ویکسین ہی پاور فل ہتھیار ہے، لیکن اس وقت ایک تو لوگوں میں لگوانے کے رجحان میں بھی کمی ہے اور دوسرا ویکسین کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ دوسری وباؤں کی طرح لگتا ہے کہ اس کے کیسز کم ہوں گے لیکن آتے رہیں گے۔ بوسٹر ڈوز کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ابھی مشکل ہے، لیکن ماہرین کے خیال میں یہ ویکسین اس وائرس کے خلاف کافی عرصے تک کارآمد رہے گی۔ ہو سکتا ہے کہ دس سال سے قبل اس کے بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہ پڑے ۔ ‘‘

٭ٹین ایجرز کی ویکسی نیشن سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں:’’ 18 سال کم عمر سپیشل گروپ ہوتا ہے۔ اس وقت جتنی بھی ویکسین بنانے والی کمپنیاں ہیں، ان میں فائزر کے علاوہ کسی بھی کمپنی کے پاس ٹین ایجرز کے حوالے سے سیفٹی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم فائزر ویکسین 12 سے زیادہ عمر کے بچوں میں لگانے کی سفارش آگئی ہے۔ اس کے علاوہ سیفٹی ڈیٹا نہ ہونے کے باعث کسی دوسری ویکسین کو بچوں کے لیے سفارش نہیں کیا جا رہا ۔ ‘‘ اس حوالے سے ڈاکٹر ندیم رضوی کا کہنا ہے:’’ چونکہ یہ مرض عام افراد کی نسبت بچوں میں بہت ہی کم شرح کے ساتھ دیکھا گیا ہے ، اسی بناء پر اصل توجہ کا مرکز وہ ایج گروپس ہیں جن میں اس مرض نے شدت کے ساتھ حملہ کیا ہے۔ ‘‘

٭کیا ویکسین لگوانے والے فرد کو کورونا ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ویکسین کیوں لگوائیں؟
ڈاکٹر ندیم رضوی کا کہنا ہے:’’ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ویکسین لگوانے کے بعد کووڈ ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر خدانخواستہ کورونا ہو گا بھی تو وہ جان لیوا نہیں ہو گا اور یہی سب سے اہم بات ہے۔ ویکسین لگوانے کے بعد 100 فیصد یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ محفوظ ہو گئے ہیں جب تک کہ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ ویکسین نہیں لگوا لیتے، اس وقت تک ہم سب کو سماجی فاصلہ، ہاتھوں کو دھونا اور ماسک لگانے جیسی عادات کو جاری رکھنا پڑے گا۔‘‘

(یہ مضمون پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک ویبینار کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ اس ویبینار کا مقصد کورونا ویکسین کے بارے میں عام ذہنوں میں موجود خدشات کو دور کرنا اور زبان زد عام سوالات کے جواب دے کر قوم کو شعور صحت دینا تھا۔

عبد الودود

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سعودی عرب آنے والوں کے لیے کونسی ویکسین ضروری ہے؟

سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ مملکت میں تاحال کورونا کے حوالے سے چار اقسام کی ویکسین منظور کی گئی ہیں جبکہ سعودی شہریوں اور مملکت میں رہنے والے غیر ملکیوں کو دو طرح کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ ویب نیوز ’عاجل‘ نے سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کی جانب سے جاری کی گئی وضاحت کے حوالے سے کہا ہے کہ مملکت کے تمام ویکسینیشن سینٹرز میں شہریوں اور مقیم غیرملکیوں کو ’فائزر بائیونٹیک ‘ اور ’اسٹرا زینیکا‘ ویکسین لگائی جارہی ہے۔ فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے مذکورہ وضاحت ایک شخص کی جانب سے سوال پر کی جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ ’کیا سعودی عرب میں ’سائینوفارم‘ ویکسین کی منظوری کی کوئی اطلاع ہے‘۔ سوال کا جواب دیتے ہوئے سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ ’تاحال مملکت آنے والوں کے لیے چار ویکسین کی منظوری دی گئی ہے جن میں فائزر، اسٹرا زائینکا‘ ’موڈرنا‘ اور جانسن اینڈ جانسن شامل ہیں جبکہ شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کے لیے ویکسینیشن سینٹرز میں ’فائرز ‘ اور ’اسٹرا زینیکا‘ ویکسین لگائی جارہی ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

ویکسینیشن کا کورونا متاثرین پر کیا اثر ہوتا ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی ویکسی نیشن وائرس سے متاثرہ لوگوں میں قدرتی مدافعت بڑھا دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ تبدیل شدہ شکل کی حامل کورونا وائرس سے بھی انھیں ممکنہ طور پر محفوظ رکھتی ہے۔ امریکا کی راک فیلیئر یونیورسٹی کے محققین نے کورونا سے متاثرہ مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا تو انھیں ان مالیکیولز کے ارتقا کا اندازہ ہوا جو کہ مریضوں میں ویکسی نیشن کے بعد ڈیولپ ہوئے تھے۔ یہ مالیکیولز مریضوں میں بہتر اور طویل المدتی دفاعی صلاحیت بڑھا دیتی ہے۔ اس تحقیق میں ایسے 63 افراد شامل تھے جو گزشتہ سال موسم بہار میں کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے۔ تاہم اس تحقیق کا ابھی دیگر ماہرین نے جائزہ نہیں لیا ہے۔

ان افراد کے فالو اپ ڈیٹا سے وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ انکے امیون سسٹم کے میموری بی سیل نے جو اینٹی باڈیز پیدا کیے وہ سارس کوویڈ 2 (جو کہ کورونا وائرس کا سبب بنتا ہے) کو نیوٹرالائز کرنے میں زیادہ بہتر ہو گئے تھے۔ محققین نے اس گروپ میں شامل 26 افراد جنھیں موڈرنا یا فائزر ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگ چکی تھی، ان میں اینٹی باڈیز مزید بڑھ چکے تھے۔ اور ان میں موجود مدافعتی نظام وائرس کے تبدیل شدہ شکل (یوکے، جنوبی افریقہ اور نیویارک ویری اینٹ) کے خلاف بھی غیر معمولی طور پر مزاحمت کا حامل ہو چکا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

عالمی ادارہِ صحت نے چینی ویکسین، سائنو ویک کی منظوری دیدی

عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چینی سائنوویک کووڈ ویکسین کی منظوری دیدی ہے لیکن یہ اجازت ہنگامی حالت میں استعمال سے مشروط ہے۔ اس طرح سائنوفارم کے بعد یہ دوسری چینی ویکسین ہے جس کی منظوری دی گئی ہے۔ سائنوویک دنیا کے کئی ممالک میں اٹھارہ برس سے زائد عمر کے افراد کے لیے پہلے ہی استعمال کی جارہی ہے۔ تاہم ڈبلیو ایچ او نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی میں استعمال کا مطلب یہ ہے کہ ’ویکسین کو ابھی حفاظت، افادیت اورتیاری جیسے مراحل پر مزید بین الاقوامی معیارات سے گزارنا ہوں گے۔‘

تاہم سائنوویک ویکسین پر کئے گئے بعض تجربات اور نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین لگوانے والے نصف سے زائدافراد کورونا کی ظاہری علامات سے بچے رہے ، جبکہ 100 فیصد افراد کورونا کی شدید علامات اور ہسپتال میں داخل ہونے سے محفوظ رہے۔ اس موقع پر ڈبلیو ایچ او کا مؤقف تھا کہ دنیا میں ویکسین کی بلا امتیاز فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ ایک سے زائد ویکسین کی منظوری دی جائے تاکہ لوگوں کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہو سکے۔ سائنوویک کمپنی کے مطابق اب تک دنیا میں اس کی 60 کروڑ خوراکیں دی جاچکی ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پاکستان میں کرونا ویکسی نیشن کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے۔ تاہم ملک میں بہت سے لوگ ویکسین کی افادیت اور اس کے اثرات کے حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کرونا ویکسین سے متعلق عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ویکسین آپ کو وبا سے 100 فی صد محفوظ رکھتی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں متعارف کرائی گئی ویکسین کتنی مؤثر ہے، کیا واقعی اس کے منفی اثرات ہیں؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کرونا نہیں ہوتا؟ ان سوالات اور کرونا ویکسین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے پنجاب میں کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی رُکن ڈاکٹر صومیہ اقتدار سے گفتگو کی ہے۔

کیا ویکسین کرونا کے خلاف مکمل تحفظ دیتی ہے؟
ڈاکٹر صومیہ اقتدار کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ دوبارہ انفیکشن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ہر ویکسین کی ایک شرح افادیت ہوتی ہے اور پاکستان میں لگائی جانے والی چین کی ‘سائنو فارم’ ویکسین کمپنی کے مطابق ان کی ویکسین 72 فی صد مؤثر ہے۔ یعنی ان کے بقول ویکسین لگوانے کے باوجود 28 فی صد افراد میں یہ امکان رہتا ہے کہ انہیں دوبارہ کرونا ہو سکتا ہے۔

کون سی کرونا ویکسین زیادہ مؤثر ہے؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ‘سائنو فارم’ کے علاوہ چین کی ہی ‘کین سائنو’ ویکسین 75 فی صد تک مؤثر ہے جس کی ایک خوراک لگائی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نجی طور پر لگائی جانے والی روسی ویکسین ‘اسپوتنک فائیو’ کی شرح افادیت 90 فی صد ہے۔

پھر ویکسین لگوانے کا فائدہ؟
ڈاکٹر صومیہ کا ویکسین لگوانے کے فوائد بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ جو لوگ کرونا سے متاثر ہوتے ہیں اور انہوں نے ویکسین لگوائی ہوتی ہے تو وہ اس وبا سے معمولی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے بقول گو کہ ویکسین بیماری کے خلاف 100 فی صد تحفظ فراہم نہیں کرتی، تاہم یہ مریض کو شدید بیمار ہونے اور اس کی جان جانے سے بچاتی ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی شخص وائرس کا شکار ہو بھی جاتا ہے تو معمولی علامات کے بعد وہ جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔

ویکسین کی دو خوراکیں کیوں ضروری ہیں؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق کرونا ویکسین کی پہلی خوراک لگانے کے پانچ سے چھ دنوں بعد اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ ریسپانس اتنا کافی نہیں ہوتا کہ یہ آپ کو بیماری سے مکمل محفوظ رکھ سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا ویکسین کی دوسری خوراک لگنے کے 15 سے 20 دنوں بعد ریسپانس اتنا اچھا ہوتا ہے کہ آپ کو بیماری سے بچایا جا سکے۔

کیا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے دوران کرونا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک لگوانے کے درمیانی عرصے میں بھی انفیکشن ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اُن کے بقول اس وقت جسم میں قوتِ مدافعت ناکافی ہوتی ہے۔

کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کے لیے بھی ویکسین ضروری ہے؟
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ چوں کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں۔ لہذا انہیں ویکسین کی ضرورت یا ویکسین کی دونوں خوراکوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ ایک نیا وائرس ہے۔ اس لیے اس پر ابھی اتنی تحقیق نہیں کی گئی کہ پتا ہو کہ اس کے خلاف قوت مدافعت کتنی دیر تک موجود رہتی ہے۔ لہذا ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ قوت مدافعت جتنی بہتر ہو گی اتنا اچھا ہے۔

ویکسین لگوانے کے بعد ری ایکشن کے امکانات
برطانیہ اور یورپی ممالک میں ‘آکسفورڈ یونیورسٹی’ کی تیار کردہ ‘ایسٹرا زینیکا’ ویکسین لگوانے سے ہونے والی اموات اور بلڈ کلوٹس (خون کے لوتھڑے) بننے کی شکایات سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لگائے جانے والی سائنو فارم، ‘کین سائنو’ اور ‘اسپوتنک فائیو’ ویکسین بہت محفوظ ہیں اور ان کے تاحال منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسینز لگوانے کے بعد معمولی بخار، جسم درد یا انجکشن والی جگہ پر درد ہو سکتا ہے جو کوئی بھی اور ویکسین لگوانے سے بھی ہو سکتا ہے۔

کیا ویکسین بچوں کو بھی لگائی جا سکتی ہے؟
ڈاکٹر صومیہ کے مطابق پاکستان میں سائنو فارم ویکسین کو صرف 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہی لگانے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آزمائش بچوں میں نہیں کی گئی۔

ویکسین لگوانے کے بعد تدابیر؟
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی وہی احتیاطی تدابیر اپنائی جانی چاہئیں جو ویکسین لگوانے سے پہلے اپناتے ہیں۔ ان کے بقول یہ سب اس لیے ضروری ہے کیوں کہ کرونا ویکسین آپ کو 100 فی صد بیماری سے نہیں بچاتی تاہم یہ شدید بیمار ہونے اور موت سے بچاتی ہے۔

نوید نسیم

بشکریہ وائس آف امریکہ

مسئلہ صرف کوویڈ ویکسین کا نہیں

چند ماہ قبل خوشخبری آئی کہ سرکارِ عالی نے کوویڈ ویکسین کی خریداری کے لیے ڈیڑھ ارب روپے کی رقم مختص کر دی ہے۔ پھر پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت نے قومی اسمبلی میں یہ خبر سنائی کہ عوام کو ویکسین مفت میسر ہو گی۔ پھر خبر آئی کہ حکومت نے نجی شعبے کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ خبر آئی کہ حکومت نے پندرہ فروری سے ملک میں ویکسینیشن پروگرام شروع کر دیا ہے۔ ایک تصویر بھی شایع ہوئی جس میں وزیرِ اعظم عمران خان اور دیگر ایک ہیلتھ ورکر کو چین سے تحفے میں ملنے والی پانچ لاکھ ویکسینز کی پہلی ڈوز لگتے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک تو فلم بہترین چل رہی تھی۔ لیکن ہاف ٹائم کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے کہانی نے اداسی کی جانب موڑ لے لیا۔ اس ضمن میں پہلی اطلاع ملی کہ اگرچہ پہلے مرحلے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ ہیلتھ ورکرز کی پہلی ویکسینیشن ہو چکی ہے۔ مگر چند ہیلتھ ورکرز ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ شائد سوشل میڈیا پر ویکسینیشن کے خلاف طرح طرح کے مفروضاتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں۔

چنانچہ سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو انتباہ جاری کرنا پڑا کہ جو ہیلتھ ورکر ویکسینیشن سے انکار کرے گا اس کی نوکری تیل ہو جائے گی۔ درمیان میں یہ خبر بھی آئی کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی صاحبزادی اور داماد نے کسی ہیلتھ ورکر کا کوڈ نمبر استعمال کرتے ہوئے ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لی اور کسی ستم ظریف نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ چنانچہ محمد زبیر جو کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بڑے بھائی بھی ہیں۔ دونوں کو اپنی اگلی پیڑھی کی اس حرکت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحتی گفتگو کرنا پڑ گئی۔ ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کے بعد حکومت نے عوامی ویکسنیشن کے پہلے مرحلے میں پینسٹھ برس سے اوپر کے بزرگوں کی رجسٹریشن کھولی۔ اس ملک میں پینسٹھ برس سے اوپر کی آبادی لگ بھگ اسی لاکھ ہے۔ مگر ایک ماہ کے دوران صرف ایک لاکھ اسی ہزار بزرگوں نے ہی ویکسینیشن کے لیے رجسٹریشن کروائی۔ صحت کے حلقوں نے اس عدم دلچسپی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔

اور پھر پچھلے ہی ہفتے پہلا متوقع سرکاری یو ٹرن بھی سامنے آ گیا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے روبرو نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکریٹری عامر اشرف خواجہ نے بم پھوڑ دیا کہ حکومت کا اس سال ویکسین خریدنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ ہم صرف عطیے میں ملنے والی کھیپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں چین سے گیارہ ملین ویکسینز کی جو کھیپ آنی تھی اس میں بھی تاخیر ہو گئی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ایگزیکٹوز کے ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے بتایا کہ چین کی کین سائنو ویکسین کی ایک ڈوز کی قیمت تیرہ ڈالر ہے۔ لہٰذا اب ہم بین الاقوامی عطیہ کنندگان اور دوست ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہیلتھ سیکریٹری کے بقول اس برس سات کروڑ آبادی کی ویکسنیشن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی خیراتی اتحاد گیوی کی جانب سے سولہ ملین آسٹرا زنیکا آکسفورڈ ویکسینز کا عطیہ ملے گا۔ اس امداد سے بیس فیصد آبادی کو فائدہ ہو گا۔

یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا تیار کر رہا ہے اور جون تک کھیپ موصول ہو جائے گی۔ پاکستان کی پندرہ فیصد آبادی میں کورونا سے مدافعت کی اینٹی باڈیز صلاحیت پیدا ہو چکی ہے لہٰذا اسے ویکسنیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بقول سیکریٹری ہیلتھ اگر ملک کی سول و فوجی قیادت اپنی ویکسنیشن کرواتے ہوئے تصویر کشی کروا لے تو جن لوگوں کے دل میں ویکسین کے سلسلے میں شکوک و شبہات ہیں وہ خاصی حد تک دور ہو سکتے ہیں۔ سیکریٹری ہیلتھ نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ حکومت نے نجی شعبے کو ویکیسن منگوانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ صاحبِ استطاعت طبقہ اپنے طور پر ویکسینیشن کروا سکے۔ مگر اب تک نجی شعبے سے کوئی سنجیدہ پیش کش سامنے نہیں آئی۔ ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کو رجسٹریشن کے لیے اب تک جو تین درخواستیں موصول ہوئی ہیں وہ نامکمل ہیں۔ ان میں نہ ویکسین کا نام ہے اور نہ ہی قیمت درج کی گئی ہے۔

ایک اور مصیبت کا بھی سامناہے۔ گزشتہ برس مارچ میں جب دنیا میں کوویڈ ویکسین کا وجود بھی نہ تھا۔ ڈی ایچ اے کراچی میں ایک مشکوک ڈاکٹر سید دلدار علی کو کلفٹن پولیس نے جعلی ویکسین بیچنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ گزشتہ ہفتے ہی یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی نے ایک ایسے گروہ کا سراغ لگایا جس نے جعلی آفر لیٹرز کے ذریعے مختلف حکومتی اداروں کو پیشگی رقم کے عوض چودہ ارب یورو مالیت کی ایک ارب ویکیسن ڈوز فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ تاہم فراہمی کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔ اینٹی فراڈ ایجنسی کے بقول اس گروہ میں پیشہ ور مجرم سنڈیکیٹس اور موقع پرست عناصر شامل ہیں جن کا گٹھ جوڑ یورپ سے باہر چین اور مشرقِ بعید تک پھیلا ہوا ہے۔ جب کہ ویکسین ساز کمپنیوں نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اب تک جتنے بھی آرڈر بک کیے ہیں وہ براہ راست حکومتوں اور ذمے دار بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہیں۔ یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی کے مطابق ایک بچولیے ( مڈل مین ) نے اٹلی کی چند ریجنل حکومتوں سے بھی براہ راست رابطہ کر کے ویکسین بیچنے کی پیش کش کی۔

اینٹی فراڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جعلی پیش کش صرف مالی نقصان کا ہی نہیں بلکہ ویکیسنز پر عوامی اعتماد متزلزل ہونے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ انھی خطرات کے پیشِ نظر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے دو روز قبل اقوامِ متحدہ کے تحت انسدادِ جرائم کی چودھویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر ویکسینشن پروگرام کامیاب بنانا ہے تو عالمی برادری کو فراڈ اور جعلی ویکسین کے خطرے کا فوری مشترکہ سدِباب کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ویکسینیشن مہم ارب ہا ڈالر کا معاملہ ہے اور جہاں اتنا پیسہ ہو وہاں جرائم پیشہ گروہوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ خود ویکسینیشن۔ ’’ جب تازہ ہوا کے لیے روشندان اور کھڑکیاں کھلتی ہیں تو مچھر اور مکھیاں بھی گھس آتے ہیں۔اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے‘‘۔ ( ڈینگ ڑاؤ بنگ)

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا ویکسین سے محرومی

وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے صحت (جنہیں وزیر صحت بھی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا درجہ یہی ہے) ڈاکٹر فیصل سلطان نے دو روز پہلے ایک مؤقر انگریزی روزنامے کو بتایا ہے کہ پاکستان نے کووڈ19- ویکسین کی خریداری کے لیے نہ تو کسی کو کوئی آرڈر دیا ہے، نہ ہی کسی دوا ساز ادارے نے اس کی فراہمی کے لیے ہماری کوئی درخواست منظور کی ہے۔ ان کا فرمانا تھا کہ ہم اپنے فرنٹ لائن ورکرز اور دوسروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مذکورہ ویکسین کی پہلی کھیپ حاصل کرنے کی پُرزور (سر توڑ) کوشش کر رہے ہیں، لیکن نہ تو کوئی حتمی آرڈر دیا جا سکا ہے، نہ ہی کسی نے اسے قبول کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اِس انکشاف سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر معاملات کس رفتار سے چل رہے ہیں۔ دُنیا مریخ پر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے، ایک منٹ میں میلوں کی مسافت طے کی جا رہی ہے، اور ہمارے ایوانوں میں چیونٹی کو آئیڈیل بنا کر توقع کی جا رہی ہے کہ اسے ”برق رفتاری‘‘ سمجھا جائے، اور تمغۂ حسنِ کارکردگی بھی ان سب کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، جو اس کارِ بے خیر میں مصروف ہیں۔

کورونا وائرس نے سال بھر سے دُنیا میں تباہی مچا رکھی ہے، دُنیا بھر کی معیشتوں کو تہ و بالا کر دیا ہے، انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی سر پیٹنے پر مجبور ہیں۔ اس سے بنی نوع انسان کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف ممالک میں ویکسین کی تیاری پر کام شروع ہوا، تو برسوں کا کام مہینوں میں مکمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر لی گئی۔ اِس وقت مختلف ممالک میں مختلف اداروں کی تیار کردہ ویکسین شہریوں کو فراہم کی جا رہی ہے۔ دُنیا میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرنے والی ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دولت مند ممالک تو پیشگی بکنگ کرا ہی رہے تھے، نسبتاً کم وسیلہ ممالک بھی اپنی بساط سے آگے بڑھ کر اس کے حصول کی کوشش میں مصروف رہے تاکہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے سکیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک میں تو برق رفتاری کے ساتھ ٹیکے لگائے جانا ہی تھے، اسرائیل کے وزیراعظم بھی دن کا چین اور رات کی نیند بھولے ہوئے تھے۔ انہوں نے چند روز کے اندر اندر عالمی شہرت یافتہ ویکسین ساز ادارے ”فائزر‘‘ کے چیف ایگزیکٹو کو سترہ بار فون کیا، تاکہ اپنے ملک کے لیے فراہمی کو یقینی بنا سکیں۔

لندن کے ایک اخبار کے مطابق انہوں نے اس ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 45 پونڈ ادا کی ہے، جبکہ برطانیہ نے اسے 30 پونڈ میں حاصل کیا ہے۔ زیادہ قیمت دے کر وہ گاہکوں کی قطار کو توڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں، اور اپنے ملک کے اٹھارہ لاکھ شہریوں کو ٹیکے لگوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ تین ہفتے کے اندر ممکن بنایا گیا۔ اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نومبر کے وسط تک اسرائیل نے کوئی بکنگ نہیں کرائی تھی، لیکن جب فائزر کی ویکسین کی دھوم مچی تو اس کے وزیراعظم حرکت میں آئے، اور اپنے ہاتھ رنگنے میں کامیاب ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے گزشتہ سال کے آخری مہینے کی 13 تاریخ کو برطانوی دوا ساز ادارے آکسفورڈ کی تین کروڑ ویکسین کی خریداری کیلئے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ یہ ویکسین بھارت کے سیرم انسٹیٹیوٹ میں بھی تیار ہو رہی ہے۔ پچاس پچاس لاکھ کی چھ قسطوں میں اسے بنگلہ دیش کو فراہم کیا جانا تھا۔ اس معاہدے سے ایک ماہ پہلے، یعنی نومبر 2020ء کے دوران میں آکسفورڈ (یا اسٹرا زینیکا) ویکسین کی فراہمی کے لیے بنگلہ دیش کی ایک دوا ساز کمپنی اپنی حکومت کے ساتھ مل کر مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کر چکی تھی۔

اب آئیے بھارت کی طرف، آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ اسٹرا زینیکا ویکسین ایک معاہدے کے تحت سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا بھی تیار کر رہا ہے۔ بھارت اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کیلئے یہاں ایک ارب خوراکیں تیار کی جائیں گی۔ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد اسے برآمد کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے بائیوٹیک نامی ادارے نے اپنی ویکسین بھی تیار کر لی ہے۔ اس بارے میں بعض بھارتی حلقے بے اطمینانی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین بھی محفوظ اور موثر پائی گئی ہے۔ بھارت نے اپنے تیس کروڑ شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس پر تیز رفتاری سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دُنیا کے کئی دیگر ترقی پذیر اور کم وسیلہ ملک بھی تیز رفتاری سے ویکسین حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کی طرف دیکھئے، اور اپنے احوال پر نظر کیجیے۔ ہمارے وزیراعظم دن رات کورونا وائرس کے مقابلے میں بھارتی حکومت کی بے تدبیریوں کی نشاندہی کر کے، اس کا مذاق اڑاتے رہے۔

بنگلہ دیش کو تو کسی شمار قطار ہی میں نہیں سمجھا جاتا، لیکن ویکسین کی تیاری اور فراہمی میں ان دونوں ممالک کی کارکردگی ہمارے اربابِ اختیار کا منہ چڑا رہی ہے۔ ویکسین کے حصول میں جس سست روی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی کوئی نظیر ہماری تاریخ میں تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کئی آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلا ہے، جنگ ہو، زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کسی بیماری کا حملہ، پاکستانیوں کے ہاتھ پائوں پھولے ہیں، نہ ہماری حکومتوں نے بے چارگی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی دیوانہ وار جدوجہد کی گئی، اور ہوائوں کا رخ موڑا گیا۔ چند ہی سال پہلے ڈینگی نے جس طرح پاکستان کے بڑے حصے، بالخصوص پنجاب پر حملہ کیا تھا، اس وقت اس کی تباہ کاریاں دیدنی تھیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھر رہے تھے، اور ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس آفت کا مقابلہ کس طرح کریں، اس کے علاج کا کسی کو تجربہ تھا، نہ اس مرض کی نوعیت سمجھ میں آ رہی تھی۔ خاص قسم کے مچھروں سے پھیلنے والی یہ وبا سینکڑوں افراد کو نگل گئی تھی، لیکن پنجاب میں جس طرح اس کا مقابلہ کیا گیا اس نے دُنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دی۔

بیرونِ ملک سے ڈاکٹر منگوائے گئے، جنہوں نے ہمارے معالجین کی رہنمائی کی۔ ان کے ساتھ تبادلہ خیال کے ذریعے موثر حکمتِ عملی بنانے میں فیصلہ کن مدد ملی۔ مچھر کی افزائش کے لیے محفوظ سمجھے جانے والی جگہوں کو صاف کیا گیا، اور ہر وہ گوشہ تلاش کیا گیا، جہاں پر مچھر جنم لیتا، اور پرورش پاتا تھا۔ مسلسل 94 روز تک وزیراعلیٰ پنجاب صبح 6 بجے اُٹھ کر انتظامی افسروں اور عوامی نمائندوں کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے۔ عام طور پر 40 افسران اعلیٰ اور اتنے ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان حاضر ہوتے تھے، اور صوبے میں کیے جانے والے اقدامات اور ان کے اثرات کی تفصیل زیر بحث آتی تھی۔ قائد حزبِ اختلاف کے طور پر ان کا استحقاق تھا کہ وہ این سی او سی کا حصہ بنتے، لیکن انہیں حوالہ زنداں کرکے خدا معلوم کس کے جذبۂ انتقام کی تسکین کی گئی۔ کس کا ماتم کیجیے، اور کس کا منہ نوچیے کہ آج کے عالی دماغ ابھی تک کورونا ویکسین کے حصول کے معاملے پر غور کرنے کی کوشش کا آغاز کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؎

دو ہچکیوں میں ہو گیا بیمارِ غم تمام
دِل دیکھتے رہے وہ جگر دیکھتے رہے

اسے کم ہمتی کہیے، بے تدبیری، سستی یا بدذوقی، یا فیصلہ سازی کا فقدان، اس محرومی کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی، اور بالآخر ان کو بھگتنا پڑے گا، جو کچھ دیکھنے کو تیار ہیں، نہ سننے، نہ کرنے کو، این سی او سی نے وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکسی کا مظاہرہ کیا تھا، اور داد وصول کی تھی، خدا معلوم اسے کس کی نظر لگ گئی۔

مجیب الرحمان شامی

بشکریہ دنیا نیوز

کورونا کی کتنی ویکسین تیار ہو چکیں اور کون سی ویکسین کتنی مؤثر ہیں؟

دیگر ممالک کی کمپنیوں کے مقابلے میں امریکی اور جرمن دواساز کمپنیوں کے اشتراک سے بننے والی کورونا ویکیسن فائزر بائیو این ٹیک افادیت کے اعتبار سے اب تک سر فہرست ہے۔ خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق 18 نومبر کو امریکی فائزر اور جرمن بائیو این ٹیک دواساز کمپنیوں نے سب سے پہلے ویکسین کے ٹرائل کا مکمل ڈیٹا جاری کر دیا تھا۔ برطانیہ سب سے پہلا ملک تھا جس نے 3 دسمبر کو فائزر ویکسین کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دی تھی جبکہ چند دن بعد ہی 9 دسمبر کو کینیڈا اور 11 دسمبر کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے بھی استعمال کی منظوری دے دی تھی۔ یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) نے 21 دسمبر کو فائزر ویکسین کی منظوری دی جبکہ انڈیا اب تک جائزہ لے رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی رواں سال کے آخر تک فائزر ویکسین کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دینے کا عندیہ دیا ہے تاکہ پسماندہ ممالک کو سب سے پہلے ویکسین کی خوراکیں مہیا کی جا سکیں۔

فائزر ویکسین کے بعد امریکی دواساز کمپنی موڈرنا کی ویکسین کو مؤثر ہونے کے اعتبار سے ترجیح دی جا رہی ہے۔ 30 نومبر کو موڈرنا نے ویکسین کے ٹرائل کا مکمل ڈیٹا جاری کیا تھا جس کے تحت ویکسین 94.1 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔ کینیڈا نے موڈرنا کی ویکسین کی منظوری 23 دسمبر کو دے دی تھی جبکہ یورپی میڈیسن ایجنسی نے 6 جنوری تک منظوری دینے کا عندیہ دیا ہے۔ برطانوی دواساز کمپنی ایسٹرا زینیکا نے 23 نومبر کو ویکسین کے ٹرائل کا ڈیٹا جاری کر دیا تھا تاہم ابھی تک برطانوی حکومت نے اس کی منظوری نہیں دی۔ کمپنی کے مطابق ویکسین اوسطاً 70 فیصد تک کورونا سے تحفظ فراہم کرے گی جبکہ 90 فیصد تک ن افراد میں کارآمد ثابت ہوئی ہے جن کو آدھی خوراک لگانے کے بعد ویکسین کی ایک مکمل خوراک لگائی گئی تھی۔ تاہم ایسٹرا زینیکا کمپنی نے یہ نہیں واضح کیا کہ مختلف خوراکوں کی بنیاد پر ویکسین کی افادیت کا کیسے تعین کیا جائے گا۔

انڈیا ایسٹرا زینیکا کمپنی کے فراہم کردہ ڈیٹا کا جائزہ لے رہا ہے تاہم کمپنی سے ویکسین ٹرائل کا مزید ڈیٹا فراہم کرنے کا کہا ہے۔ جبکہ یورپی میڈیسن ایجنسی بھی ایسٹرا زینیکا ویکسین کا جائزہ لے رہی ہے۔ امریکی کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے ویکسین کے ٹرائل کا ڈیٹا آئندہ سال جنوری میں جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک اور کمپنی نوویکس کے بھی برطانیہ میں کورونا ویکسین کے ٹرائل جاری ہیں جس نے آئندہ سال کی پہلی سہہ ماہی میں ڈیٹا جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ویکسین کی کم از کم افادیت 70 فیصد ہونی چاہیے۔ جبکہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے خیال میں ویکسین کو کم از کم 50 فیصد تک کارآمد ہونا چاہیے۔ فائزر کی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کا جائزہ لینے کے بعد اس کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی۔

اس کے مقابلے میں روس اور چین کئی مہینوں سے اپنے شہریوں کو مختلف ویکسینز لگا رہے ہیں جن کے ٹرائل ابھی تک مکمل نہیں ہوئے۔ روس نے 24 نومبر کو اپنی سپتنک فائیو نامی ویکسین کے تیار ہونے کا اعلان کیا تھا جس کی افادیت کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ 91.4 فیصد کارآمد ہے۔ جبکہ چین نے دیگر ممالک کے مقابلے میں ایمرجنسی بنیادوں پر سب سے پہلے ویکسین لگانے کا آغاز کر دیا تھا۔ جولائی سے نومبر تک چین اپنے 10 لاکھ شہریوں کو ویکسین لگا چکا ہے۔ چین میں لگائی جانے والی ویکسین مقامی کمپنی سائینو بائیوٹیک نے تیار کی ہے جبکہ دوسری چین کے سرکاری ادارے نیشنل بائیو ٹیک گروپ کے تحت تیار کی گئی ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

کوویڈ ویکسین کی آپا دھاپی

جب تک کورونا کی ویکسین تیار نہیں ہوئی تھی۔ وائرس نے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ اسے کسی ایک قوم یا خطے کی بیماری کے بجائے ایسی عالمی وبا قرار دیا جا رہا تھا جس سے نپٹنے کی ذمے داری کسی ایک ادارے ، ویکسین ساز کمپنی یا ملک پر نہیں بنی نوع انسان پر عائد ہوتی ہے۔ پر جیسے ہی پہلے فائزر ، پھر موڈرنا ، پھر آسٹرا زنیکا آکسفورڈ اور پھر روسی سپوتنک فائیو ویکسین نے اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔ کوویڈ وائرس کے خلاف عالمی بھائی چارہ تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا چلا گیا۔ وائرس سے لڑنے کا مشترکہ عالمی عزم یا شیخ اپنی اپنی دیکھ میں بدل گیا۔ جن ممالک کے پاس نوٹوں کی بہتات تھی انھوں نے منہ مانگی قیمتوں پر اگلے ایک سال کی پروڈکشن پیشگی خرید لی۔ مثلاً فائزر ، موڈرنا اور آسٹرا زنیکا کی اگلے برس کی بارہ ارب خوراکوں میں سے نو ارب خوراکیں امریکا سمیت امیر ممالک نے پہلے ہی سے بک کر لی ہیں۔ کینیڈا نے اپنی کل آبادی کی ضروریات سے پانچ گنا زائد خوراکیں خریدنے کے لیے پیشگی رقم ادا کر دی ہے۔

اگرچہ اس وقت مختلف ممالک میں لگ بھگ پچاس ادارے کوویڈ ویکسینز کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیس کے بارے میں امید ہے کہ اگلے ایک برس میں مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ مگر وہ کتنی موثر ہوں گی اور ان کے ذیلی نقصانات کتنے کم یا زیادہ ہوں گے۔ اس کی جان کاری میں وقت لگے گا۔ اس دوڑ میں جو کمپنیاں پہلے شامل ہوئی ہیں لامحالہ وہ سب سے زیادہ منافع کمائیں گی۔ مگر کیا وہ اس ویکسین کی تیاری کے عمل میں اپنے تحقیق و ترقی کے اخراجات پورے کرنے اور اپنے حصص یافتگان کو بھاری منافع تقسیم کرنے کے بعد اس ویکسین کا فارمولا عام استعمال کے لیے کھول دیں گی ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دنیا کے آخری آدمی تک کہ جس کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے بھی بمشکل پیسے ہیں۔ اس تک ویکسین کب پہنچے گی۔ امیر ممالک چاہیں تو ویکسین کی عالمی سطح پر تقسیم کی راہ میں حائل ناہمواری کو دور کرنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر نجی شعبے کی بے لگام طاقت کیا انھیں ایسا کرنے دے گی ؟

جو عوام دوست تنظیمیں کوویڈ ویکسین کے حقوق عام کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ پچھلے دس ماہ کے دوران ویکسین کی تیاری کے لیے دوا ساز کمپنیوں کو جو سرمایہ ملا ہے اس میں سے اسی فیصد پیسہ حکومتوں نے لگایا ہے جب کہ کمپنیوں نے ویکسین کی تحقیق و ترقی کی مد میں اپنی جیب سے صرف بیس تا پچیس فیصد پیسے خرچ کیے ہیں۔ یعنی دس ارب ڈالر کی فنڈنگ میں ان کمپنیوں کی فنڈنگ کا تناسب دو سے ڈھائی ارب ڈالر ہے۔ چنانچہ ان کمپنیوں کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ پیسہ فراہم کرنے والے امیر ممالک کی ضروریات پوری کرنے اور ایک مناسب منافع کمانے کے بعد زیادہ سے زیادہ دو برس میں اپنے پیٹنٹ حقوق سے بنی نوع انسان کے عام استعمال کی خاطر دستبردار ہو جائیں تاکہ سستے داموں اچھی ویکسین تیزی سے دنیا کے آخری کونے تک دستیاب ہو سکے۔ مگر آزاد معیشت کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ ان کمپنیوں کو نئی ادویات اور ویکسینز کی تحقیق و ترقی پر خرچ کرتے رہنے کی ترغیب دینے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں منافع سے محروم نہ کیا جائے۔

ماضی میں زیادہ تر کمپنیاں یہ سوچ کر مختلف وباؤں کی ویکسینز تیار کرنے میں بہت زیادہ پرجوش نہیں رہیں کیونکہ ان وباؤں کا ہدف غریب ممالک کی اکثریت ہوتی ہے اور غریب ممالک میں ویکسین خریدنے کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ یوں کمپنیاں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر جو اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں اس تناسب سے انھیں منافع حاصل نہیں ہوتا۔ یہ وہ بحث ہے جو تاقیامت جاری رہ سکتی ہے البتہ ویکسین کی مساوی تقسیم کے لیے مالی طور پر کمزور ممالک نے اپنا ایک ویکسین اتحاد کوویڈ انیشیٹو کے نام سے تشکیل دیا ہے۔ پاکستان سمیت ایک سو بہتر ممالک اس اتحاد میں شامل ہیں جسے عالمی ادارہِ صحت کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ اتحاد غریب ممالک کی کم ازکم بیس فیصد آبادی کو اگلے ایک برس میں ویکسین کی چھتری تلے لانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے سات ارب ڈالر کے فنڈز جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک لگ بھگ دو ارب ڈالر ہی جمع ہو پائے ہیں۔ یہ فنڈ اب تک مختلف کمپنیوں سے ڈھائی سو ملین ویکسین خوراکوں کی خریداری میں ہی کامیاب ہو پایا ہے جب کہ اس کا اگلے ایک برس کا ہدف کم ازکم دو ارب خوراکوں کی خریداری ہے۔

اب تک صفِ اول کی جو دو ویکسینز ( فائزر اور موڈرنا ) سامنے آئی ہیں انھیں منفی ستر سے لے کر منفی بیس تک درجہِ حرارت برقرار رکھنے والے سرد خانے درکارہیں۔ امیر ممالک کے پاس یہ سہولت موجود ہے۔ البتہ دنیا کی لگ بھگ تین ارب آبادی ایسی ہے جو ایسی سہولتوں سے بہت دور ہے۔ اگر ویکسین دستیاب بھی ہو جائے تب بھی ان تین ارب انسانوں تک اس کی ترسیل کیسے ہو گی۔ یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے۔ مثلاً مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پچیس لاکھ آبادی کو اگر فائزر یا موڈرنا ویکسین مل بھی جائے تو اس کا ذخیرہ کیسے ہو گا۔ کیونکہ پورے غربِ اردن میں صرف جیریکو شہر میں مطلوبہ ٹھنڈک پیدا کرنے والا صرف ایک سسٹم ہے۔ جب کہ غزہ کی دس لاکھ آبادی کے پاس ایک بھی مطلوبہ ریفریجریشن سسسٹم موجود نہیں اور اگر ہو بھی تو کس کام کا کیونکہ غزہ میں ویسے بھی چوبیس میں سے اوسطاً بیس گھنٹے بجلی کا کال ہے۔

اس کے برعکس اسرائیل کے پاس نہ صرف ویکسین خریدنے کی مالی استطاعت بلکہ اسے موثر درجہِ حرارت پر ذخیرہ کرنے کا ریفریجریشن نظام بھی موجود ہے۔ اسرائیل نے فائزر سے آٹھ ملین اور موڈرنا سے تین ملین ویکسین خوراکوں کا سودا کیا ہے۔ یہ ذخیرہ نوے لاکھ کی آبادی میں سے نصف کی ویکسینیشن کے لیے کافی ہے۔ اس آبادی میں مقبوضہ فلسطین میں قائم یہودی آبادکار بستیاں بھی شامل ہیں۔ اسرائیل میں روزانہ ساٹھ ہزار شہریوں کی ویکسینشن کا کام شروع ہو چکا ہے۔ مگر مقبوضہ فلسطینی اس انتظام سے باہر ہیں۔ جب اسرائیل کے نائب وزیرِ صحت یوو کیش سے پوچھا گیا کہ اسرائیل کے فوجی انتظام کے تحت مقبوضہ علاقوں کی فلسطینی آبادی کی ویکسینشن کے بارے میں کیا سوچا گیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر تمام اسرائیلی شہریوں کی ویکسینیشن کے بعد خوراکیں بچ گئیں تو ہم وہ کھیپ فلسطینی اتھارٹی کو عطیہ کر دیں گے کیونکہ لاکھوں فلسطینی دیہاڑی دار اسرائیل میں بھی محنت مزدوری کے لیے آتے ہیں اور ان کی ویکسینیشن بھی اسرائیلی شہریوں کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ اسرائیلی اہلکار کا یہ انسانیت دوست بیان سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا ویکسین کی تقسیم، امیر اور غریب ممالک میں واضح تفریق

کورونا ویکسین کی تقسیم کے دوران امیر اور غریب ممالک کے درمیان واضح فرق دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا ویکسین کی اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ تاہم غریب ممالک کو ویکسین کے حصول کے لیے طویل راستہ طے کرنا ہو گا۔ کوویکس نامی پیش رفت اس لیے شروع کی گئی تھی کہ کووڈ 19 کے خلاف ویکسین کی پوری دنیا میں رسائی کو یقینی بنایا جا سکے تاہم کورونا ویکسین کی محض 2 ارب خوراکیں آئندہ سال خریدنے کے لیے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ مزید برآں ویکسین کی ترسیل کے حوالے سے اب تک کسی حتمی سودے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اور غریب ممالک کے پاس اس کے لیے مالی وسائل کی کمی پائی جاتی ہے۔

عدم مساوات کی ایک اور مثال
کورونا وائرس جہاں دنیا بھر میں 1.6 ملین سے زائد انسانوں کو نگل چُکا ہے وہاں اس کے خلاف جنگ اور مزید انسانوں کو موت کے خطرات سے بچانے کے لیے ویکسینیشن کی فراہمی کے عمل نے امیر اور غریب ممالک کے مابین عدم مساوات کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگرچہ کمزور معیشتوں کے حامل ممالک بھی کورونا کی وبا سے شدید متاثر ہوئے اور غریب ممالک میں صحت کے ناقص نظام کے سبب کورونا کے شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی ہے، تب بھی کووڈ 19 کے خلاف ویکسینیشن کے اولین حقدار امیر ملکوں کے عوام ہی نظر آ رہے ہیں۔ کوویکس عالمی ادارہ صحت کی پیش قدمی ہے جس میں ویکسین الائنس جی اے وی آئی اور سی ای پی آئی کا ایک گلوبل الحاق دنیا بھر سے متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ کے لیے سرگرم ہے۔ اس پیش رفت کا ایک اہم مقصد ایسی صورتحال پیدا ہونے سے روکنا ہے جس میں وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کے حصول میں بین الاقوامی سطح پر ایک بھگدڑ مچے اور وبا کے پھیلاؤ کی صورتحال مزید خراب ہو جائے۔ کیونکہ اس صورتحال میں عدم مساوات کو مزید تقویت ملے گی۔

ترقی یافتہ ممالک پر دباؤ
چند ماہرین ان امکانات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا کے خلاف ویکسین کی امیر ممالک میں فراہمی منصفانہ اور اشتراک کے ساتھ ہو گی۔ فی الحال ویکسین محدود مقدار میں تیار ہوئی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں سے چند نے اس ویکسین کی تیاری پر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ اس ویکسین کی تیاری کے لیے ہونے والی تحقیق پر ان ممالک نے ٹیکس دہندگان کے پیسے بھی لگائے ہیں اس لیے ان کی حکومتوں پر شدید دباؤ ہے کہ وہ سب سے پہلے ویکسین خریدیں اور عوام کو فراہم کریں۔ اُدھر کوویکس پر دستخط کرنے کے باوجود غریب ممالک کو خطرات لاحق ہیں کہ ان تک ویکسین نہیں پہنچ پائے گی۔ ورلڈ اکنامک فورم میں عالمی صحت کے شعبے کے سربراہ آرناؤد برنائرٹ کے بقول،” یہ ایک سادہ سا ریاضی کا اصول ہے۔‘‘ امید ہے کہ ادویات سازی کی صنعت کُل قریب 12 بلین ویکسین ڈوزز آئندہ برس یعنی 2021 ء میں تیار کرے گی جس میں سے 9 بلین پہلے ہی امیر ممالک کے لیے مختص کر دی گئی ہیں۔ کوویکس کی طرف سے کافی مقدار میں ویکسین ڈوزز محفوظ نہیں کیے گئے ہیں اس لیے ایسی صورتحال سامنے آ سکتی ہے کہ اسے ویکسین تاخیر سے ملیں۔

بھارتی کمپنی کی یقین دہانی
سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا نامی کمپنی 200 ملین ویکسین ڈوزز تیار کرے گی اور ممکنہ طور پر اسی ویکسین کا ایک بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو مہیا کیا جائے گا۔ اس کمپنی کے سی ای او آدر پونا والا نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی کو آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسترا زینیکا اور نووایکس کی طرف سے 100 ملین ویکسین ڈوزز کےآرڈرز مل چُکے ہیں۔ ایسو سی ایٹیڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے پوناوالا کا کہنا تھا،” تحریری طور پر ہمارے پاس فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اگر انہیں مزید ویکسین چاہیے تو انہیں مزید آرڈرز دینا ہوں گے۔‘‘ آدر پونا والا نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کی کمپنی کی اولین ترجیح بھارت کے لیے ویکسین شاٹس بنانا ہے اور بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ انہیں کم از کم 300 ملین ویکسین کی ضرورت ہو گی۔ تاہم کمپنی کے سی ای او آدر پونا والا کے بقول،”بھارت کی طرف سے اتنے بڑے آرڈرز کے سبب خطے کے دیگر ممالک کو ویکسین کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو