Tag Archives: Coronavirus impacts
کورونا ویکسین کے باوجود عالمی وبا کے معاشی نقصانات جلد ختم نہیں ہوں گے
کورونا وبا کے خاتمے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے اعتماد کے باوجود اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی سے متعلق کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس ویکسین معاشی نقصان روک نہیں سکے گا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این سی ٹی اے ڈی کی رپورٹ کے مطابق وبا کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا خدشہ ہے اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک کی معیشتیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔ یو این سی ٹی اے ڈی کی ‘امپیکٹ آف کووڈ۔19 پینڈیمک آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ’ رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران کووڈ-19 کی وبا سے بین الاقوامی معیشت میں 4.3 فیصد سکڑاؤ متوقع ہے۔
عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر کے مزید 13 کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر فی الفور پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ایجنڈا 2030 بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ تجارتی بحالی اور وبا کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے تجارتی پالیسیوں پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ یو این سی ٹی اے ڈی نے بین الاقوامی برادری کو خبر دار کیا ہے کہ کووڈ 19 کے معاشی نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کیے جائیں تاکہ کروڑوں انسانوں کو غربت سے بچانے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
رپورٹ میں یو این سی ٹی اے ڈی نے عالمی معیشت کے تمام شعبوں پر وائرس کے گہرے اثرات کا پتہ لگایا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اس بحران نے عالمی تجارت، سرمایہ کاری، پیداوار، روزگار اور بالآخر انفرادی معاش پر بھی کیا اثر ڈالا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وبائی مرض کا اثر غیر متزلزل اور سب سے زیادہ کمزور ممالک پر اثر انداز ہوا ہے جو کم آمدنی والے خاندانوں، تارکین وطن، غیر رسمی کارکنوں اور خواتین کو متاثر کرتی ہے۔ 1998 کے ایشیائی مالی بحران کے بعد پہلی بار عالمی غربت عروج پر ہے۔ 1990 میں عالمی غربت کی شرح 35.9 فیصد تھی، 2018 تک اس کو 8.6 فیصد تک محدود کر دیا گیا تھا تاہم رواں سال پہلے ہی یہ 8.8 فیصد تک پہنچ چکا تھا اور امکان ہے کہ یہ 2021 میں بڑھ جائے گا۔
امین احمد
بشکریہ ڈان نیوز
کینیڈا کی فیاضی اور معاشی عدم مساوات
عالمی وبا کی ابتدا میں ہی دنیا اس بات پر متفق ہو گئی تھی کہ کورونا معیشت کے لیے تاریخ کا ایک ڈرائونا ترین خواب ہے۔ کورونا کی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کے امیر و غریب ممالک نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ کینیڈا کا ابتدائی تخمینہ یہ تھا کہ اس ملک کو اپنے شہریوں کی انفرادی و اجتماعی مالی مدد کے لیے تقریباً نو سو تیس بلین ڈالر درکار ہوں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تخمینے میں ردوبدل ہوتا رہا۔ آخری اعداد و شمار کا آنا باقی ہے مگر کینیڈا نے انتہائی فیاضی سے بہت بڑے وسائل اپنے شہریوں اور کاروباری اداروں پر خرچ کیے‘ مگر اس قابل رشک منصفانہ تقسیم کے باوجود ملک کے کئی کم خوش قسمت طبقات کی ضروریات اور تکالیف کا تسلی بخش ازالہ نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ کورونا سے پہلے سے موجود معاشی عدم مساوات ہے۔ اس معاشی عدم مساوات کی ایک جھلک کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورانٹو کی تازہ ترین رپورٹس میں دکھائی دیتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس شہر میں جن لوگوں کی سالانہ آمدن تیس ہزار کینیڈین ڈالر سے کم ہے، ان کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات خوشحال لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
ان کم آمدنی والے لوگوں کا کورونا سے متاثر ہونے اور بیمار پڑنے کا رسک ان لوگوں کی نسبت پانچ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہے، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ پچاس ہزار کینیڈین ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے سامنے آنے والی مختلف رپورٹس کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ 7 نومبر 2020ء تک ٹورانٹو شہر میں 29 ہزار سات سو ایسے کیس شناخت کئے گئے تھے، جو کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور اس وقت تک مرنے والوں کی کل تعداد 14 ہزار تھی۔ جن لوگوں کی اس وائرس سے اموات واقع ہوئی ہیں ان کی عمر زیادہ تر 70 سال اور اس سے اوپر تھی، اکثریت اسّی سال سے اوپر کے لوگوں کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شہریوں کے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ زیادہ عمر تھی۔ زیادہ عمر میں انسان کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے‘ لیکن سماجی دوری کی وجہ سے تنہائی اور ڈپریشن بھی ان اموات کا ایک سبب ہو سکتی ہے؛ تاہم عمر اور تنہائی ہی دو عناصر نہیں ہیں‘ عمر کے علاوہ اس عمل میں دو دوسرے بڑے عناصر بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں ایک عنصر نسل ہے اور دوسرا آمدنی ہے۔ اور یہ دونوں عناصر وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ناقابل شکست طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
ستمبر کے مہینے تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر میں کورونا سے متاثر ہونے والے سیاہ فام، مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے لوگوں کی تعداد سفید فام لوگوں کی نسبت سات گنا زیادہ تھی۔ اس شاکنگ فرق کی وضاحت یہ پیش کی جاتی ہے کہ زیادہ آمدنی والے لوگوں کو اپنے گھروں سے کام کرنے کی سہولت حاصل تھی۔ ان کو معاشی خوشحالی کی وجہ سے یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لئے دوسرے لوگوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کر سکیں۔ ان کو یہ بھی سہولت حاصل تھی کہ اگر ان کو شہر میں نقل و حرکت کی ضرورت پڑے تو وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ ذاتی گاڑی استعمال کر سکتے تھے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ آسانی سے سماجی دوری کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وائرس کے خطرے سے دور رہ کر معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ کم آمدنی والے لوگوں کو یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر آن لائن کام نہیں کر سکتے۔ ان لوگوں کا زیاہ تر کام محنت مزدوری ہے، جس کے لیے کام کی جگہ پر ان کی موجودگی ضروری ہے‘ خواہ وہ ایک فیکٹری ہو، کارخانہ ہو، ہوٹل یا ریستوران ہو، یا پھر اسی نوعیت کے دوسرے کام ہوں۔
کام کے دوران ان کو دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے یہ لوگ سماجی دوری کے اصولوں کی پاس داری نہیں کر سکتے تھے، جو وائرس کے پھیلائو کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہے۔ کورونا کی روک تھام کے لیے جب پہلی بار شہر کو بند کیا گیا تو اس کے بعد فوری طور پر زیادہ آمدنی والے اور سفید فام نسل کے لوگوں میں وائرس کے پھیلاؤ کو کم ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں کے ایک بڑے اور معتبر اخبار ٹورانٹو سٹار نے لکھا کہ شہر کو بند کرنے کا عمل امیروں کے لیے تو کام کرتا ہے، مگر غریبوں کے لیے بالکل نہیں۔ شہر کے بہت سارے کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز اور دوسرے خیراتی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جہاں تک رنگ دار نسل کے شہریوں اور نئے آنے والے تارکین وطن کا تعلق ہے، تو ان لوگوں کے حالات وائرس کے پھیلائو سے پہلے بھی زیادہ خوش گوار نہیں تھے۔ ذہنی صحت‘ جسمانی صحت، سوشل نیٹ ورک اور تعلیم کے میدان میں یہ لوگ پہلے سے سیڑھی کے پہلے زینے پر تھے، وائرس نے ان لوگوں کو مزید نیچے دھکیل دیا ہے۔
کورونا کی وجہ سے خوراک تک رسائی کا مسئلہ بھی خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ وائرس بحران سے پہلے فوڈ بینک پر انحصار کرنے والے لوگوں میں سفید فام لوگوں کی تعداد صرف دس فیصد تھی جبکہ اس کے مقابلے میں سیاہ فام لوگوں کی تعداد 28 فیصد تھی۔ بچوں میں یہ صورت حال اور بھی خراب تھی۔ اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے فوڈ بینک کی طرف دیکھنے والے سفید فام گھروں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 12 فیصد تھی جبکہ سیاہ فام بچوں کی تعداد 30.6 فیصد تھی۔ وائرس کی وجہ سے یہ بحران گہرا ہوا ہے۔ اس بحران کے دوران خوراک کے لیے فوڈ بینک پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہوا‘ اور حیرت انگیز طور پر وہ نئے لوگ جنہوں نے فوڈ بینک کو استعمال کرنا شروع کیا، ان میں دو سو فیصد کا اضافہ ہوا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس ہزار نئے لوگ ایسے سامنے آئے جن کو اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے فوڈ بینک اور بریڈ بینک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
فوڈ شیئر ٹورانٹو کے ڈائریکٹر پال ٹیلر کے بقول غربت، خوراک کی کمی اور بے گھری کے مسائل کے لیے طویل عرصے سے خیراتی اداروں پر بھروسہ کیا جاتا رہا ہے، جن کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کی سکت نہیں ہے۔ شہر میں غریب اور کم آمدنی والے ضرورت مند افراد کی رہائش و خوراک کی ضروریات سے جڑے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ وائرس کے اس بحران میں جو تنظیمیں خوراک ا ور رہائش میں مدد کا کام کرتی ہیں، ان کے پاس مستقبل قریب میں اتنے فنڈز نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے امدادی کام کاج جاری رکھ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ خیراتی ادارے اپنے آپریشن بند کرنے پر مجبور ہوں گی۔ گویا موجودہ نظام اس شکل میں کورونا کی نئی لہر کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ یہ کینیڈا جیسے خوشحال ملک کی صورت حال ہے، جس میں معاشی عدم مساوات نسبتاً کم ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گہری طبقاتی تقسیم والے تیسری دنیا کے غریب ممالک کی صورت حال کس قدر تشویش ناک ہو گی۔
بیرسٹر حمید باشانی
بشکریہ دنیا نیوز
کرونا وائرس کی وبا کے باعث ایک کروڑ بچے سکول واپس نہیں جا سکیں گے
برطانوی فلاحی تنظیم ‘سیو دا چلڈرن’ نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے تعلیم کے لیے ایسے ہنگامی حالات پیدا کر دیے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی اور وبا کے باعث سکول بند ہونے سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ 97 لاکھ بچے دوبارہ کبھی سکول نہیں جا سکیں گے۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلاحی تنظیم نے یونیسکو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ اپریل میں کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کے نتیجے میں ایک ارب 60 کروڑ طلبہ پر سکول اور یونیورسٹی کے دروازے بند ہو گئے۔ یہ تعداد دنیا بھر میں طلبہ کی مجموعی تعداد کا 90 فیصد ہے۔ سیو دا چلڈرن نے ایک نئی رپورٹ میں کہا : ‘انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عالمی سطح پر طلبہ کی ایک پوری نسل کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بحران سے معیشت متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے مزید نو کروڑ سے 11 کروڑ 70 لاکھ بچے غربت کا شکار ہو جائیں گے جس کا دوسرا اثر سکول میں داخلوں پر پڑے گا۔ بہت سے نوجوانوں کو خاندان کی مدد کے لیے کام کرنا پڑے گا یا لڑکیوں کی جلد شادی کر دی جائے گی۔ اس طرح 97 لاکھ بچے مستقل طور پر سکول سے باہر ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی فلاحی تنظیم نے اس بارے میں بھی خبردار کیا ہے کہ 2021 کے کے آخر تک کرونا بحران کی وجہ سے کم اور درمیانی آمدن والے ملکوں کے تعلیمی بجٹ میں 77 ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ سیو دا چلڈرن کی سربراہ انگر ایشنگ نے کہا: ‘ہو سکتا ہے ایک کروڑ بچے دوبارہ کبھی سکول نہ جا سکیں۔ یہ تعلیمی شعبے میں ایک ایسی ہنگامی حالت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومتوں کو تعلیم کے شعبے میں فوری سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ لیکن اس کی بجائے ہم بجٹ میں ایسی کٹوتیوں کے خطرے سے دوچار ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
اس کا نتیجہ امیر اور غریب اور لڑکوں لڑکیوں کے درمیان پہلے سے موجود عدم مساوات میں دھماکہ خیز اضافے کی صورت میں نکلے گا۔’ فلاحی تنظیم نے حکومتوں اور عطیات دینے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے میں ایک نئے عالمگیر منصوبے میں مزید فنڈ لگائیں تاکہ جب محفوظ ہو تو بچوں کو سکول میں واپس لایا جاسکے اور اس وقت تک فاصلاتی تعلیم میں مدد ملے سکے۔ فلاحی ادارے نے ایسے 12 ملکوں کا ذکر کیا ہے جہاں کے طلبہ پیچھے رہ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان ملکوں میں نائیجر، مالی، چاڈ، لائیبیریا، افغانستان، گنی، موریطانیہ، یمن، نائیجیریا، پاکستان، سینیگال اور آئیوری کوسٹ شامل ہیں ۔ سیو دا چلڈرن کے مطابق کرونا بحران سے پہلے 25 کروڑ 80 لاکھ بچے اور بالغ سکول نہیں جاتے تھے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
سمندر پر لاک ڈاؤن، لاکھوں افراد بہتی ہوئی جیلوں میں قید ہیں
کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن سے سب واقف ہیں لیکن ان لاکھوں افراد کے بارے میں بہت سے لوگ نہیں جانتے جو کئی مہینوں سے سمندر پر لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں بہتی ہوئی ان جیلوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اشیا کی نقل و حمل کرنے والے بحری جہازوں پر موجود ہیں۔ یہ جہاز ایک سے دوسری جگہ سامان پہنچا رہے ہیں، لیکن عملے کو بندرگاہ پر اترنے اور گھر جانے کی اجازت نہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی جگہ خشکی سے کسی شخص کو بلانے سے جہاز پر بھی کرونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ دوسری وجہ وہی کہ دنیا بھر میں سفر پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خوراک، تیل اور دواؤں سمیت دنیا بھر میں اشیا کی 80 فیصد تجارت بحری جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی پریانکا خلیج میکسیکو میں موجود دبئی کے بحری جہاز کی فرسٹ آفیسر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دسمبر میں آئل ٹینکر پر آئی تھیں اور اپریل میں وطن واپس جانا تھا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے وہ اور ان کے 23 ساتھی جہاز پر پھنس گئے ہیں اور واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ پریانکا نے کہا کہ عملے کو مشکل زندگی کا سامنا ہے اور سب جسمانی اور ذہنی طور پر تھکن کا شکار ہیں۔ بیشتر لوگ سات مہینے سے جہاز پر ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں دس گیارہ مہینے ہو چکے ہیں۔ پریانکا نے کہا کہ امیگریشن حکام کام نہیں کر رہے ہیں۔ بہت سی ائیرلائنز کام نہیں کر رہیں۔ اس صورتحال میں زندگی جمود کا شکار ہو گئی ہے۔ عملہ صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ وطن میں موجود اپنے اہلخانہ کے بارے میں بھی پریشان ہے۔
ہانگ کانگ کی بندرگاہ بے شمار بحری جہازوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہاں سے مشرق اور مغرب کے راستے ملتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی حکومت نے حال میں اعلان کیا کہ وہ بحری جہازوں کے عملے کی واپسی کے لیے تعاون کرے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عملے کے کسی رکن کی گھر واپسی کے لیے کئی حکومتوں اور اداروں سے اجازت لینے کے علاوہ متبادل کارکن کے ویزا اور سفر کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے اور موجودہ حالات میں ایسا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ پریانکا جس جہاز پر ہیں، وہ شپنگ کمپنی ویلن گروپ کا ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو فرینک کولز کو معاملے کی سنگینی کا پورا احساس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے سات ہزار کارکنوں میں سے بیشتر کے کنٹفریکٹ ختم ہو چکے ہیں۔ کی واپسی کا بندوبست کرنے کے لیے وہ ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔
فرینک کولز نے کہا کہ موجودہ بحران میں دنیا بھر میں ذہنی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس بحران سے پہلے بحری جہازوں کا 20 فیصد عملہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس بحران میں ان کی شرح کس قدر بڑھ سکتی ہے، وہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں بحری جہازوں پر لگ بھگ 2 لاکھ کارکن پھنسے ہوئے ہیں۔ فلپائن کے مرون لیگن ایک جہاز پر سیکنڈ آفیسر ہیں۔ انھوں نے سی این این کو بتایا کہ وہ گیارہ ماہ سے جہاز پر موجود ہیں۔ انھیں مارچ میں گھر واپس جانا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے سرحدیں بند ہو گئیں اور وہ جہاز پر پھنس گئے۔ وہ گھر واپس جانے اور اپنے تینوں بچوں کو گلے لگانے کے لیے بے چین ہیں۔ مرون نے کہا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگ اپنے اہلخانہ سے دور رہ کر مشکل زندگی گزارتے ہیں اور عالمی معیشت کو چلانے کے لیے فرنٹ لائن ورکرز ہیں۔ پریانکا نے بھی زور دے کر کہا کہ بحری جہاز کو عملے کو لازمی خدمات دینے والے کارکن قرار دیا جانا چاہیے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
کورونا نے یورپ کے معاشی مسائل کو کھول کر رکھ دیا ہے
یورپی کمیشن کے مطابق یورپ میں کورونا کے معاشی نقصانات توقع سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار بیس میں کساد بازاری توقع سے زیادہ گہری ہو گی اور اگلے سال آہستہ آہستہ بہتری آنا شروع ہو گی۔ ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات کے اثرات سے نکلنے کا راستہ ابھی پوری طرح واضح نہیں۔ بعض ممالک بہتر انداز میں نقصانات جھیل پائیں گے جبکہ کچھ ملکوں کو ان سے نکلنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کے بارے میں خیال ہے کہ اسے اگلے سال تک اپنی معیشت دوبارہ اٹھانے میں بہت زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔ لیکن اسپین، اٹلی اور فرانس شاید جزوی طور پر ہی اپنی معیشت بحال کر پائیں۔ حکام کے مطابق یورپ نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے اب تک جو بھی اقدامات کیے ہیں، ان سے لوگوں کی تکالیف کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس چیلنج نے خطے میں موجود عدم تحفظ، عدم مساوات اور اختلافات کو بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے یورپی کمیشن کے طرف سے مجوزہ اقدامات پر جلد اتفاق ہو تاکہ معیشت میں پیسہ چلنا شروع ہو اور لوگوں کا کچھ اعتماد بحال ہو۔ یورپی کمیشن کے مطابق خطے کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج بیروزگاری، یورپ اور برطانیہ کے تعلقات کی غیریقینی اور امریکا میں وبا کی بے قابو صورتحال ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورو زون کے انیس ممالک میں اس سال جی ڈی پی یا مجموعی داخلی پیداوار آٹھ عشاریہ سات فیصد سکڑنے کا امکان ہے۔ اس سے پہلے مئی میں خیال تھا کہ یہ معاشی گراوٹ سات عشاریہ سات فیصد تک ہو گی۔ اسی طرح یورپی یونین کے ستائیس ممالک میں معیشت آٹھ عشاریہ تین فیصد سکڑنے کا امکان ہے۔ حکام کے مطابق اگر خطے میں کورونا کی کوئی دوسری بڑی لہر آئی اور دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو