کرونا سے حاصل ہونے والی مثبت چیزیں

کرونا نے جہاں اربوں لوگوں کی زندگیاں متاثر کیں، وہیں اس کی وجہ سے چند مثبت تبدیلیاں بھی آئیں۔ وہ مثبت تبدیلیاں کیا تھیں؟

صفائی اور پاکیزگی کا اہتمام
طبی ماہرین نے شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کا سب سے عمدہ طریقہ صابن سے بار بار ہاتھ دھونا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاتھ دھونے اور صفائی ستھرائی کی عادت سے لوگ دوسرے جراثیم سے بھی محفوظ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال نزلہ، زکام اور دوسرے وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ماسک کا استعمال
کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک کو کار آمد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماسک کے استعمال سے بہت سے جراثیم سے بچا جاسکتا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ماسک دھول مٹی سے بھی محٖفوط رکھتا ہے جس کے باعث سانس کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ماسک نزلہ، زکام سمیت دوسرے بہت سے وائرس سے بچاتا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی میں کمی
کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری دنیا میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ سفری پابندیوں کی وجہ سے ٹرین اور ہوائی جہاز پر پابندی بھی لگی اور ساتھ ساتھ شہری زندگی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ٹھپ ہو گیا۔ لاکھوں گاڑیوں کے کھڑے رہنے سے ماحولیاتی آلودگی میں بڑی حد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ شہر کی فضاؤں میں بھی بہتری محسسوس کی گئی۔

جنگلی حیات کو فائدہ
انسان گھروں میں محصور ہوئے تو جنگلی جانوروں کو پنپنے کا موقع مل گیا اور کئی قسم کے جانور، جو پہلے نہیں دیکھے گئے تھے، انہیں اپنی بلوں اور غاروں سے باہر نکلنے کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں آبادی کے قریب کئی تیندوے دیکھے گئے جو انسانوں کی کثرت کی وجہ سے اپنے غاروں تک محدود تھے۔

کرونا ایس او پیز کے سائے تلے ہونے والی شادیاں
کرونا ایس او پیز کے پہلے مرحلے میں شادیوں پر پابندی تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں اس کی اجازت مل گئی۔ اس اجازت میں ٹائمنگ سب سے خاص تھی، یعنی رات 10 بجے تک شادی کی تقریب کی اجازت دی گئی تھی۔ اس ٹائمنگ کی وجہ سے لوگ بہت جلد فارغ ہو کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں اور دور سے آنے والوں کے لیے بھی آسانی ہوتی ہے۔ یاد رہے پاکستانی کلچر اور بالخصوص کراچی میں شادیاں صبح تین بجے سے پہلے ختم نہیں ہوتیں جس کے باعث لوگوں کو گھر پہنچنے اور صبح آفس جانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔

ایس او پیز والی شادی کا ایس او پیز والا کھانا
دوسرے مرحلے میں شادی کے کھانے پر بھی مختلف قسم کی پابندی تھیں۔ اس میں بوفے کی اجازت نہیں تھی البتہ ٹیبل پر کھانا سروو کرنے کی اجازت تھی جس کی بنا پر شادی کا کھانا مہمانوں کو میزوں پر ہی سرو کیا جانے لگا۔ اس وجہ سے لوگوں نے کھانا پلیٹوں میں بھرا نہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق پلیٹوں میں نکالا اور اچھی طرح مکمل کھانا تناول فرمایا۔ نتیجاتاً کھانا ضائع ہونے سے بچا اور رزق کی بے حرمتی میں بھی کمی آئی۔

مارکیٹ ٹائمنگ
کرونا نے پوری دنیا کی معیشت کا پہیہ جام کر ڈالا، جس کی بڑی وجہ بازاروں کا بند رہنا تھا لیکن دوسرے مرحلے میں جب لاک ڈاؤن کا سلسلہ کچھ نرم ہوا تو مارکیٹ کو بھی صبح سے رات آٹھ بجے تک کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس ٹائمنگ کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو گھر والوں کے ساتھ وقت گزرنے کا موقع ملا۔ ساتھ ساتھ بجلی کی بچت بھی ہوئی اور بازار جلد کھلنے کی وجہ سے لوگ علی الصبح بیدار ہونے لگے جس کے بنا پر وقت کی قدر و قیمت کا احساس ہوا۔ یہ چند بنیادی اور مثبت تبدیلیاں تھیں جو کرونا کے دور میں آئیں۔ کرونا تو وقت کے ساتھ چلا ہی جائے گا مگر یہ مثبت تبدیلیاں اگر قائم رہیں تو معاشرتی طور پر ہمیں اس کا فائدہ پہنچے گا۔

مدثر مہدی

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

کورونا ویکسین کے باوجود عالمی وبا کے معاشی نقصانات جلد ختم نہیں ہوں گے

کورونا وبا کے خاتمے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے اعتماد کے باوجود اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی سے متعلق کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس ویکسین معاشی نقصان روک نہیں سکے گا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این سی ٹی اے ڈی کی رپورٹ کے مطابق وبا کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا خدشہ ہے اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک کی معیشتیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔ یو این سی ٹی اے ڈی کی ‘امپیکٹ آف کووڈ۔19 پینڈیمک آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ’ رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران کووڈ-19 کی وبا سے بین الاقوامی معیشت میں 4.3 فیصد سکڑاؤ متوقع ہے۔

عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر کے مزید 13 کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر فی الفور پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ایجنڈا 2030 بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ تجارتی بحالی اور وبا کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے تجارتی پالیسیوں پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ یو این سی ٹی اے ڈی نے بین الاقوامی برادری کو خبر دار کیا ہے کہ کووڈ 19 کے معاشی نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کیے جائیں تاکہ کروڑوں انسانوں کو غربت سے بچانے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔

رپورٹ میں یو این سی ٹی اے ڈی نے عالمی معیشت کے تمام شعبوں پر وائرس کے گہرے اثرات کا پتہ لگایا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اس بحران نے عالمی تجارت، سرمایہ کاری، پیداوار، روزگار اور بالآخر انفرادی معاش پر بھی کیا اثر ڈالا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وبائی مرض کا اثر غیر متزلزل اور سب سے زیادہ کمزور ممالک پر اثر انداز ہوا ہے جو کم آمدنی والے خاندانوں، تارکین وطن، غیر رسمی کارکنوں اور خواتین کو متاثر کرتی ہے۔ 1998 کے ایشیائی مالی بحران کے بعد پہلی بار عالمی غربت عروج پر ہے۔ 1990 میں عالمی غربت کی شرح 35.9 فیصد تھی، 2018 تک اس کو 8.6 فیصد تک محدود کر دیا گیا تھا تاہم رواں سال پہلے ہی یہ 8.8 فیصد تک پہنچ چکا تھا اور امکان ہے کہ یہ 2021 میں بڑھ جائے گا۔

امین احمد

بشکریہ ڈان نیوز

کینیڈا کی فیاضی اور معاشی عدم مساوات

عالمی وبا کی ابتدا میں ہی دنیا اس بات پر متفق ہو گئی تھی کہ کورونا معیشت کے لیے تاریخ کا ایک ڈرائونا ترین خواب ہے۔ کورونا کی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کے امیر و غریب ممالک نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ کینیڈا کا ابتدائی تخمینہ یہ تھا کہ اس ملک کو اپنے شہریوں کی انفرادی و اجتماعی مالی مدد کے لیے تقریباً نو سو تیس بلین ڈالر درکار ہوں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تخمینے میں ردوبدل ہوتا رہا۔ آخری اعداد و شمار کا آنا باقی ہے مگر کینیڈا نے انتہائی فیاضی سے بہت بڑے وسائل اپنے شہریوں اور کاروباری اداروں پر خرچ کیے‘ مگر اس قابل رشک منصفانہ تقسیم کے باوجود ملک کے کئی کم خوش قسمت طبقات کی ضروریات اور تکالیف کا تسلی بخش ازالہ نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ کورونا سے پہلے سے موجود معاشی عدم مساوات ہے۔ اس معاشی عدم مساوات کی ایک جھلک کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورانٹو کی تازہ ترین رپورٹس میں دکھائی دیتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس شہر میں جن لوگوں کی سالانہ آمدن تیس ہزار کینیڈین ڈالر سے کم ہے، ان کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات خوشحال لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔

ان کم آمدنی والے لوگوں کا کورونا سے متاثر ہونے اور بیمار پڑنے کا رسک ان لوگوں کی نسبت پانچ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہے، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ پچاس ہزار کینیڈین ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے سامنے آنے والی مختلف رپورٹس کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ 7 نومبر 2020ء تک ٹورانٹو شہر میں 29 ہزار سات سو ایسے کیس شناخت کئے گئے تھے، جو کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور اس وقت تک مرنے والوں کی کل تعداد 14 ہزار تھی۔ جن لوگوں کی اس وائرس سے اموات واقع ہوئی ہیں ان کی عمر زیادہ تر 70 سال اور اس سے اوپر تھی، اکثریت اسّی سال سے اوپر کے لوگوں کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شہریوں کے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ زیادہ عمر تھی۔ زیادہ عمر میں انسان کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے‘ لیکن سماجی دوری کی وجہ سے تنہائی اور ڈپریشن بھی ان اموات کا ایک سبب ہو سکتی ہے؛ تاہم عمر اور تنہائی ہی دو عناصر نہیں ہیں‘ عمر کے علاوہ اس عمل میں دو دوسرے بڑے عناصر بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں ایک عنصر نسل ہے اور دوسرا آمدنی ہے۔ اور یہ دونوں عناصر وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ناقابل شکست طور پر جڑے ہوئے ہیں۔

ستمبر کے مہینے تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر میں کورونا سے متاثر ہونے والے سیاہ فام، مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے لوگوں کی تعداد سفید فام لوگوں کی نسبت سات گنا زیادہ تھی۔ اس شاکنگ فرق کی وضاحت یہ پیش کی جاتی ہے کہ زیادہ آمدنی والے لوگوں کو اپنے گھروں سے کام کرنے کی سہولت حاصل تھی۔ ان کو معاشی خوشحالی کی وجہ سے یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لئے دوسرے لوگوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کر سکیں۔ ان کو یہ بھی سہولت حاصل تھی کہ اگر ان کو شہر میں نقل و حرکت کی ضرورت پڑے تو وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ ذاتی گاڑی استعمال کر سکتے تھے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ آسانی سے سماجی دوری کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وائرس کے خطرے سے دور رہ کر معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ کم آمدنی والے لوگوں کو یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر آن لائن کام نہیں کر سکتے۔ ان لوگوں کا زیاہ تر کام محنت مزدوری ہے، جس کے لیے کام کی جگہ پر ان کی موجودگی ضروری ہے‘ خواہ وہ ایک فیکٹری ہو، کارخانہ ہو، ہوٹل یا ریستوران ہو، یا پھر اسی نوعیت کے دوسرے کام ہوں۔

کام کے دوران ان کو دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے یہ لوگ سماجی دوری کے اصولوں کی پاس داری نہیں کر سکتے تھے، جو وائرس کے پھیلائو کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہے۔ کورونا کی روک تھام کے لیے جب پہلی بار شہر کو بند کیا گیا تو اس کے بعد فوری طور پر زیادہ آمدنی والے اور سفید فام نسل کے لوگوں میں وائرس کے پھیلاؤ کو کم ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں کے ایک بڑے اور معتبر اخبار ٹورانٹو سٹار نے لکھا کہ شہر کو بند کرنے کا عمل امیروں کے لیے تو کام کرتا ہے، مگر غریبوں کے لیے بالکل نہیں۔ شہر کے بہت سارے کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز اور دوسرے خیراتی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جہاں تک رنگ دار نسل کے شہریوں اور نئے آنے والے تارکین وطن کا تعلق ہے، تو ان لوگوں کے حالات وائرس کے پھیلائو سے پہلے بھی زیادہ خوش گوار نہیں تھے۔ ذہنی صحت‘ جسمانی صحت، سوشل نیٹ ورک اور تعلیم کے میدان میں یہ لوگ پہلے سے سیڑھی کے پہلے زینے پر تھے، وائرس نے ان لوگوں کو مزید نیچے دھکیل دیا ہے۔

کورونا کی وجہ سے خوراک تک رسائی کا مسئلہ بھی خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ وائرس بحران سے پہلے فوڈ بینک پر انحصار کرنے والے لوگوں میں سفید فام لوگوں کی تعداد صرف دس فیصد تھی جبکہ اس کے مقابلے میں سیاہ فام لوگوں کی تعداد 28 فیصد تھی۔ بچوں میں یہ صورت حال اور بھی خراب تھی۔ اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے فوڈ بینک کی طرف دیکھنے والے سفید فام گھروں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 12 فیصد تھی جبکہ سیاہ فام بچوں کی تعداد 30.6 فیصد تھی۔ وائرس کی وجہ سے یہ بحران گہرا ہوا ہے۔ اس بحران کے دوران خوراک کے لیے فوڈ بینک پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہوا‘ اور حیرت انگیز طور پر وہ نئے لوگ جنہوں نے فوڈ بینک کو استعمال کرنا شروع کیا، ان میں دو سو فیصد کا اضافہ ہوا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس ہزار نئے لوگ ایسے سامنے آئے جن کو اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے فوڈ بینک اور بریڈ بینک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

فوڈ شیئر ٹورانٹو کے ڈائریکٹر پال ٹیلر کے بقول غربت، خوراک کی کمی اور بے گھری کے مسائل کے لیے طویل عرصے سے خیراتی اداروں پر بھروسہ کیا جاتا رہا ہے، جن کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کی سکت نہیں ہے۔ شہر میں غریب اور کم آمدنی والے ضرورت مند افراد کی رہائش و خوراک کی ضروریات سے جڑے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ وائرس کے اس بحران میں جو تنظیمیں خوراک ا ور رہائش میں مدد کا کام کرتی ہیں، ان کے پاس مستقبل قریب میں اتنے فنڈز نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے امدادی کام کاج جاری رکھ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ خیراتی ادارے اپنے آپریشن بند کرنے پر مجبور ہوں گی۔ گویا موجودہ نظام اس شکل میں کورونا کی نئی لہر کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ یہ کینیڈا جیسے خوشحال ملک کی صورت حال ہے، جس میں معاشی عدم مساوات نسبتاً کم ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گہری طبقاتی تقسیم والے تیسری دنیا کے غریب ممالک کی صورت حال کس قدر تشویش ناک ہو گی۔

بیرسٹر حمید باشانی

 بشکریہ دنیا نیوز

کرونا وائرس کی وبا کے باعث ایک کروڑ بچے سکول واپس نہیں جا سکیں گے

برطانوی فلاحی تنظیم ‘سیو دا چلڈرن’ نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے تعلیم کے لیے ایسے ہنگامی حالات پیدا کر دیے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی اور وبا کے باعث سکول بند ہونے سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ 97 لاکھ بچے دوبارہ کبھی سکول نہیں جا سکیں گے۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلاحی تنظیم نے یونیسکو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ اپریل میں کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کے نتیجے میں ایک ارب 60 کروڑ طلبہ پر سکول اور یونیورسٹی کے دروازے بند ہو گئے۔ یہ تعداد دنیا بھر میں طلبہ کی مجموعی تعداد کا 90 فیصد ہے۔ سیو دا چلڈرن نے ایک نئی رپورٹ میں کہا : ‘انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عالمی سطح پر طلبہ کی ایک پوری نسل کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بحران سے معیشت متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے مزید نو کروڑ سے 11 کروڑ 70 لاکھ بچے غربت کا شکار ہو جائیں گے جس کا دوسرا اثر سکول میں داخلوں پر پڑے گا۔ بہت سے نوجوانوں کو خاندان کی مدد کے لیے کام کرنا پڑے گا یا لڑکیوں کی جلد شادی کر دی جائے گی۔ اس طرح 97 لاکھ بچے مستقل طور پر سکول سے باہر ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی فلاحی تنظیم نے اس بارے میں بھی خبردار کیا ہے کہ 2021 کے کے آخر تک کرونا بحران کی وجہ سے کم اور درمیانی آمدن والے ملکوں کے تعلیمی بجٹ میں 77 ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ سیو دا چلڈرن کی سربراہ انگر ایشنگ نے کہا: ‘ہو سکتا ہے ایک کروڑ بچے دوبارہ کبھی سکول نہ جا سکیں۔ یہ تعلیمی شعبے میں ایک ایسی ہنگامی حالت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومتوں کو تعلیم کے شعبے میں فوری سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ لیکن اس کی بجائے ہم بجٹ میں ایسی کٹوتیوں کے خطرے سے دوچار ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔

اس کا نتیجہ امیر اور غریب اور لڑکوں لڑکیوں کے درمیان پہلے سے موجود عدم مساوات میں دھماکہ خیز اضافے کی صورت میں نکلے گا۔’ فلاحی تنظیم نے حکومتوں اور عطیات دینے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے میں ایک نئے عالمگیر منصوبے میں مزید فنڈ لگائیں تاکہ جب محفوظ ہو تو بچوں کو سکول میں واپس لایا جاسکے اور اس وقت تک فاصلاتی تعلیم میں مدد ملے سکے۔ فلاحی ادارے نے ایسے 12 ملکوں کا ذکر کیا ہے جہاں کے طلبہ پیچھے رہ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان ملکوں میں نائیجر، مالی، چاڈ، لائیبیریا، افغانستان، گنی، موریطانیہ، یمن، نائیجیریا، پاکستان، سینیگال اور آئیوری کوسٹ شامل ہیں ۔  سیو دا چلڈرن کے مطابق کرونا بحران سے پہلے 25 کروڑ 80 لاکھ بچے اور بالغ سکول نہیں جاتے تھے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

سمندر پر لاک ڈاؤن، لاکھوں افراد بہتی ہوئی جیلوں میں قید ہیں

کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن سے سب واقف ہیں لیکن ان لاکھوں افراد کے بارے میں بہت سے لوگ نہیں جانتے جو کئی مہینوں سے سمندر پر لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں بہتی ہوئی ان جیلوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اشیا کی نقل و حمل کرنے والے بحری جہازوں پر موجود ہیں۔ یہ جہاز ایک سے دوسری جگہ سامان پہنچا رہے ہیں، لیکن عملے کو بندرگاہ پر اترنے اور گھر جانے کی اجازت نہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی جگہ خشکی سے کسی شخص کو بلانے سے جہاز پر بھی کرونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ دوسری وجہ وہی کہ دنیا بھر میں سفر پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خوراک، تیل اور دواؤں سمیت دنیا بھر میں اشیا کی 80 فیصد تجارت بحری جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والی پریانکا خلیج میکسیکو میں موجود دبئی کے بحری جہاز کی فرسٹ آفیسر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دسمبر میں آئل ٹینکر پر آئی تھیں اور اپریل میں وطن واپس جانا تھا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے وہ اور ان کے 23 ساتھی جہاز پر پھنس گئے ہیں اور واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ پریانکا نے کہا کہ عملے کو مشکل زندگی کا سامنا ہے اور سب جسمانی اور ذہنی طور پر تھکن کا شکار ہیں۔ بیشتر لوگ سات مہینے سے جہاز پر ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں دس گیارہ مہینے ہو چکے ہیں۔ پریانکا نے کہا کہ امیگریشن حکام کام نہیں کر رہے ہیں۔ بہت سی ائیرلائنز کام نہیں کر رہیں۔ اس صورتحال میں زندگی جمود کا شکار ہو گئی ہے۔ عملہ صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ وطن میں موجود اپنے اہلخانہ کے بارے میں بھی پریشان ہے۔

ہانگ کانگ کی بندرگاہ بے شمار بحری جہازوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہاں سے مشرق اور مغرب کے راستے ملتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی حکومت نے حال میں اعلان کیا کہ وہ بحری جہازوں کے عملے کی واپسی کے لیے تعاون کرے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عملے کے کسی رکن کی گھر واپسی کے لیے کئی حکومتوں اور اداروں سے اجازت لینے کے علاوہ متبادل کارکن کے ویزا اور سفر کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے اور موجودہ حالات میں ایسا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ پریانکا جس جہاز پر ہیں، وہ شپنگ کمپنی ویلن گروپ کا ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو فرینک کولز کو معاملے کی سنگینی کا پورا احساس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے سات ہزار کارکنوں میں سے بیشتر کے کنٹفریکٹ ختم ہو چکے ہیں۔ کی واپسی کا بندوبست کرنے کے لیے وہ ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔

فرینک کولز نے کہا کہ موجودہ بحران میں دنیا بھر میں ذہنی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس بحران سے پہلے بحری جہازوں کا 20 فیصد عملہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس بحران میں ان کی شرح کس قدر بڑھ سکتی ہے، وہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں بحری جہازوں پر لگ بھگ 2 لاکھ کارکن پھنسے ہوئے ہیں۔ فلپائن کے مرون لیگن ایک جہاز پر سیکنڈ آفیسر ہیں۔ انھوں نے سی این این کو بتایا کہ وہ گیارہ ماہ سے جہاز پر موجود ہیں۔ انھیں مارچ میں گھر واپس جانا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے سرحدیں بند ہو گئیں اور وہ جہاز پر پھنس گئے۔ وہ گھر واپس جانے اور اپنے تینوں بچوں کو گلے لگانے کے لیے بے چین ہیں۔ مرون نے کہا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگ اپنے اہلخانہ سے دور رہ کر مشکل زندگی گزارتے ہیں اور عالمی معیشت کو چلانے کے لیے فرنٹ لائن ورکرز ہیں۔ پریانکا نے بھی زور دے کر کہا کہ بحری جہاز کو عملے کو لازمی خدمات دینے والے کارکن قرار دیا جانا چاہیے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کورونا نے یورپ کے معاشی مسائل کو کھول کر رکھ دیا ہے

یورپی کمیشن کے مطابق یورپ میں کورونا کے معاشی نقصانات توقع سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار بیس میں کساد بازاری توقع سے زیادہ گہری ہو گی اور اگلے سال آہستہ آہستہ بہتری آنا شروع ہو گی۔ ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات کے اثرات سے نکلنے کا راستہ ابھی پوری طرح واضح نہیں۔ بعض ممالک بہتر انداز میں نقصانات جھیل پائیں گے جبکہ کچھ ملکوں کو ان سے نکلنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کے بارے میں خیال ہے کہ اسے اگلے سال تک اپنی معیشت دوبارہ اٹھانے میں بہت زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔ لیکن اسپین، اٹلی اور فرانس شاید جزوی طور پر ہی اپنی معیشت بحال کر پائیں۔ حکام کے مطابق یورپ نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے اب تک جو بھی اقدامات کیے ہیں، ان سے لوگوں کی تکالیف کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس چیلنج نے خطے میں موجود عدم تحفظ، عدم مساوات اور اختلافات کو بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔ 

ماہرین کے مطابق ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے یورپی کمیشن کے طرف سے مجوزہ اقدامات پر جلد اتفاق ہو تاکہ معیشت میں پیسہ چلنا شروع ہو اور لوگوں کا کچھ اعتماد بحال ہو۔ یورپی کمیشن کے مطابق خطے کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج بیروزگاری، یورپ اور برطانیہ کے تعلقات کی غیریقینی اور امریکا میں وبا کی بے قابو صورتحال ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورو زون کے انیس ممالک میں اس سال جی ڈی پی یا مجموعی داخلی پیداوار آٹھ عشاریہ سات فیصد سکڑنے کا امکان ہے۔ اس سے پہلے مئی میں خیال تھا کہ یہ معاشی گراوٹ سات عشاریہ سات فیصد تک ہو گی۔ اسی طرح یورپی یونین کے ستائیس ممالک میں معیشت آٹھ عشاریہ تین فیصد سکڑنے کا امکان ہے۔ حکام کے مطابق اگر خطے میں کورونا کی کوئی دوسری بڑی لہر آئی اور دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

 

کورونا وائرس : احتیاط علاج کا نعم البدل نہیں ہو سکتی

کورونا وائرس سے آج ساری دنیا لرز رہی ہے۔ اس آسیب کی تباہ کاریوں کا اندازہ اس کے نقصانات سے لگایا جاسکتا ہے کورونا کی تباہ کاریوں کا زہر پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس وبا کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانے یا کم کرنے کے لیے ہر ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، اب تک لاک ڈاؤن سے لاکھوں عوام بے روزگار ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اس وبا کو آئے ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ان تین مہینوں میں کورونا نے پاکستانی عوام کو کس قدر جانی نقصان پہنچایا ہے، اس کے بھیانک پن کا اندازہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ صرف ’’احتیاط‘‘ کو اس کا علاج قرار دیا جا رہا ہے۔

دنیا میں اب تک صرف کینسر کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا لیکن اب اس حوالے سے کورونا بھی لاعلاج بیماری کی تعریف میں آتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ کورونا کی تباہ کاریاں اور جانی نقصان کینسر سے بہت زیادہ ہے اور امریکا اور روس جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں دس ہزار یومیہ میں آرہی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں انسانوں کو جانی نقصان پہنچانے والی کئی وبائی بیماریاں آئیں لیکن اس کے نقصانات کورونا سے بہت کم رہے ہیں۔ کورونا سے ساری دنیا لرزہ براندام ہے اور طبی ماہرین اس حوالے سے اس موذی مرض کا علاج دریافت کرنے میں جٹے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ دنیا بھر میں اس وبا سے عوام کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیے جا رہے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے اس کے برخلاف بھاری جانی نقصان کے علاوہ معیشتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور بے روزگاری کا ایک طوفان آیا ہوا ہے جس سے حکومتیں متزلزل ہو کر رہ گئی ہیں۔

اس وبا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے یہ وبا ہزاروں جانوں کا خراج لے لیتی ہے۔ اس وبا سے متاثرین کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ایک دن میں 10 ہزار متاثرین کی تعداد صرف ایک ملک کی ہے اور دنیا میں لگ بھگ دو سو ملک ہیں ان خوفناک حقائق سے کورونا کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس وبا کی خوفناکی کا عالم یہ ہے کہ اب تک سیکڑوں ڈاکٹر اس کی زد میں آچکے ہیں ان نقصانات کی وجہ دنیا کے عوام میں مایوسی کی ایک خوفناک لہر پیدا ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ روز ہزاروں انسانی جانوں کو ہڑپ کرنے والی اس خونی دیوی کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ جب کہ ساری دنیا کے ہزاروں طبی ماہرین اس عذاب کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس سے قبل بھی انھی کالموں میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا دنیا کے مشہور طبی ماہرین مشترکہ طور پر کورونا کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کر سکتے، ایسا کیا گیا تو اس عفریت کے علاج میں کامیابی کے زیادہ امکانات کی توقع کی جاسکتی ہے۔

ترقی یافتہ دولت مند ملکوں میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کی نسبتاً زیادہ سکت ہے لیکن پسماندہ ملکوں کی معیشت اس وبا کے ناقابل یقین نقصانات سے تباہی کے کنارے پہنچ گئی ہے۔ ان مخدوش حالات میں دولت مند ملکوں کی طرف سے پسماندہ ملکوں کی مالی مدد میں ضرورت کے مطابق اضافہ ضروری ہے، اس میں شک نہیں کہ دولت مند ملک، پسماندہ ملکوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ ان کے علاوہ دنیا کے مالیاتی ادارے بھی ان ملکوں کی مالی مدد کر رہے ہیں لیکن ان ملکوں کی معیشت کو ہونے والے نقصانات کا تقاضا ہے کہ اور بڑے پیمانے پر مالی مدد کی جائے۔ پسماندہ ملکوں کی مالی مدد ان کی ضرورتوں کے تناظر میں نہ کی جائے تو پسماندہ ملک اور مشکلات کی زد میں آسکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اس قابل ہیں کہ وہ پسماندہ ملکوں کی ضرورتوں کے تناظر میں اتنی مدد ضرور کریں کہ ان ملکوں کی معیشت کا بھٹہ نہ بیٹھنے پائے۔

پسماندہ ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے اسے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مالی مدد بھی مل رہی ہے لیکن وہ پاکستان کی ضرورتوں کے تناظر میں تشویش ناک حد تک کم ہے اور حکومت اور مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ ہمارے حکمران طبقات عوام کو احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایسے معاملات کے تناظر میں بلاشبہ احتیاط ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ احتیاط علاج کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے طبی ماہرین کی حکمت کو یکجا کیا جائے اور ان کی اجتماعی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے، حالات حاضرہ کی روشنی میں اس کوشش کو آزمانا ضروری ہے صرف احتیاط سے کام چلنے کا شاید کوئی حوصلہ افزا نتیجہ ہمارے سامنے نہ آسکے۔

ظہیر اختر بیدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کورونا بحران سے بین الاقوامی تنازعات میں شدت کا خطرہ ہے

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سِپری کے ڈائریکٹر ڈَین اسمتھ نے تنبیہ کی ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث کئی بین الاقوامی تنازعات کے شدید تر ہو جانے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اس وبا کے نتیجے میں خاص طور پر شام اور عراق میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اسمتھ کے مطابق عراق میں دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی مضبوطی کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یمن اور افغانستان کے علاوہ قرنِ افریقہ کے علاقے میں بھی تنازعات میں شدت آ سکتی ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے بدترین نتائج
اس انٹرویو میں ڈَین اسمتھ نے کہا کہ کووِڈ انیس نامی بیماری کی وجہ بننے والے نئے کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیل جانے سے عالمی سطح پر جو بحرانی حالات پیدا ہو چکے ہیں، وہ عالمگیر امن کے قیام کی منزل کو مزید دور کر دیں گے۔ سپری کے سربراہ نے کئی جرمن اخبارات کے مالک فُنکے میڈیا گروپ کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا، ”امن کو لاحق یہ اضافی خطرات کورونا وائرس کی وبا کے ان بدترین نتائج میں سے ہیں، جن کا دنیا کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بدامنی اور مسلح مزاحمت سے متاثرہ متعدد ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے ڈَین اسمتھ نے کہا، ”شام کئی برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ وہاں کی صورت حال تو تشویش ناک ہے ہی۔ عراق میں بھی دہشت گرد تنظیم داعش کی سرگرمیوں میں دوبارہ تیزی کے آثار ہیں۔ اسی طرح خانہ جنگی کے شکار ملک یمن میں بھی متحارب فریقین کے مابین جنگ تیز ہو سکتی ہے جبکہ ہندوکش کی ریاست افغانستان میں بھی انہی بحرانی حالات کے سبب طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلح حملوں اور مزاحمت میں شدت کا خدشہ ہے۔

بحران زدہ افریقی ممالک
ڈَین اسمتھ نے کہا کہ افریقہ کے مغربی حصے میں بھی صورت حال اطمینان بخش نہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ بحرانی حالات قرنِ افریقہ اور دیگر خطوں کو مزید متاثر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، نائجیریا اور مالی میں بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلتے جانے سے ریاستی ڈھانچے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ سِپری کے سربراہ کا کہنا تھا، ”جب وبا سے متاثرہ انسانوں کو ان کی ریاستوں کی حکومتوں کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملے گی یا ان کی تسلی بخش مدد نہیں کی جائے گی، تو ان میں سے کئی ایسے مسلح ملیشیا گروپوں میں شامل ہو سکتے ہیں، جو عام طور پر ان متاثرین کو اشیائے خوراک کی فراہمی کے وعدے بھی کرتے ہیں۔

بدامنی کے ایک نئے دور کا آغاز
اسی طرح ماضی میں امریکی صدر باراک اوباما کے مشیر رہ چکنے والے اور انٹرنیشنل کرائسس گروپ نامی تھنک ٹینک کے سربراہ رابرٹ مَیلی نے بھی ایسی ہی پریشان کن صورت حال کے خلاف خبردار کیا ہے۔ رابرٹ مَیلی نے کہا، ”کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بین الاقوامی سطح پر کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ ہو گا۔‘‘ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سربراہ کا کہنا تھا، ”کووِڈ انیس کی وبا کے باعث بحران زدہ خطوں میں اقتصادی صورت حال کے خراب تر ہو جانے سے وہاں ایسے نتائج دیکھنے میں آئیں گے، جو حالات کو خراب تر کر سکتے ہیں۔ ہم بدامنی کے ایک ایسے نئے دور کے شروع میں ہیں، جس کا کسی ایک متاثرہ ملک سے دوسرے میں پہنچنا بہت تیز رفتار ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

کرونا وائرس : مہنگے ترین شہر میں مفت خوراک لینے والوں کی لمبی ترین قطار

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہفتے کے روز اس عمارت کے سامنے کم از کم ایک ہزار لوگ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آئے جہاں مفت خوراک کے پیکٹ تقسیم کیے جا رہے تھے۔ ان میں اکثریت ان غریب کارکنوں اور قانونی دستاویز نہ رکھنے والے تارکین وطن کی تھی جو عالمی وبا کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کا شمار متمول ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ لیکن، کرونا وائرس نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مفت خوراک ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مفت خوراک حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی لائن کم و بیش ایک کلومیٹر لمبی تھی جو صبح پانچ بجے سے ہی وہاں آ کر کھڑے ہو گئے تھے، تاکہ ان کی باری جلد آ سکے۔ خوراک تقسیم کرنے والے رضاکاروں کے پاس 1500 کے لگ بھگ پیکٹ تھے۔

نکاراگوا سے آ کر جنیوا میں رہنے والے ایک شخص انگریڈ برالا نے بتایا کہ میں جنیوا میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔ مگر ملازمت جاتی رہی ہے۔ میری جیب خالی ہو چکی ہے۔ مجھے اپنے بل، انشورنس اور سب کچھ ادا کرنا ہے۔ میرے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں رہا۔ یہ بہت اچھا ہے کہ ہمیں ایک ہفتے کی خوراک مفت دے رہے ہیں۔ ایک ہفتہ تو سکون سے گزر جائے گا۔ آگے کا اللہ مالک ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی آبادی تقریباً 86 لاکھ ہے جن میں سے 6 لاکھ 60 ہزار کے لگ بھگ غریب ہیں۔ ایک خیراتی ادارے کاریٹاس کا کہنا ہے کہ یہ عموماً اکیلی مائیں ہیں جو اپنے بچے پال رہی ہیں۔ ان کی تعلیم بہت کم ہے۔ انہیں ملازمت مشکل سے ملتی ہے۔ اگر نوکری جاتی رہے تو دوبارہ ڈھونڈنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔

ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 11 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں، کیونکہ ان کی آمدنیاں 2018 کی اوسط آمدنی یعنی 6736 امریکی ڈالر سے 60 فی صد سے بھی کم ہے۔ جنیوا، زیورخ کے بعد دنیا کا مہنگا ترین شہر ہے جب کہ اس شہر میں اوسط آمدنی بھی نسبتاً زیادہ ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی گزر بسر ہو جاتی ہے۔ غریبوں کی مدد کے لیے کام کرنے والے گروپ جینوا سالیڈیرٹی کیروین کی ایک عہدے دار، سلوانا ماٹروماٹو کا کہنا ہے کہ میں نے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے سب مدد کرنے نکل پڑے ہیں۔ یہ ایک اچھی چیز ہے۔ یہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہے۔

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ایک عہدے دار پیٹرک ویلینڈ نے بتایا کہ ہم نے پچھلے ہفتے خوراک لینے والوں کا سروے کیا تھا، جس سے پتا چلا تھا کہ ان میں سے آدھے لوگ قانونی دستاویزات کے بغیر یہاں رہ رہے تھے جب کہ باقیوں کی حیثیت قانونی تھی یا انہوں نے پناہ کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔ جنیوا کا شمار دنیا کے امیر ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ اس شہر میں لوگ مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ جیسے ہی کوویڈ 19 پھیلنا شروع ہوا، لوگ آن واحد میں اپنے روزگار سے محروم ہو گئے۔ ایک غیر قانونی تارک وطن نے جس کا نام فرننڈو ہے، بتایا کہ میں ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا مگر کرونا وائرس کی وجہ سے نوکری جاتی رہی اور میرے پاس کچھ نہیں رہا۔ اس لیے مجھے مفت خوراک کی لائن میں کھڑا ہونا پڑا۔ جب اچھے دن واپس آئیں گے تو میں بھی ضرورت مندوں کی اسی طرح مدد کروں گا جس طرح یہ آج میری مدد کر رہے ہیں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کرونا کی وبا کے دوران بزرگوں اور کمزور افراد کی مدد کیسے کریں؟

حکومت کہہ چکی ہے کہ لوگوں کو اب اپنے گھروں میں ہی رہنا چاہیے اور صرف کھانا لینے، ادویات لینے یا اہم ورکر ہونے اور دن میں ایک بار ورزش کرنے کے لیے ہی باہر جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ افراد جو ممکنہ طور پر کرونا وائرس کی وبا کا آسان شکار بن سکتے ہیں، جیسے کہ وہ جو پہلے سے صحت کے مسائل سے دو چار اور وہ جو ستر سال سے زائد عمر کے افراد ہیں، انہیں سماجی دوری برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور 12 ہفتے تک گھر پر رہنے اور کم سے کم لوگوں سے میل جول کا کہا گیا ہے۔ گوکہ یہ اقدامات طبی طور پر ضروری ہیں لیکن چیریٹی تنظیموں نے تنبیہ کی ہے کہ ان اقدامات سے دماغی صحت پر اثر پڑنے کے ساتھ بڑی عمر کے افراد میں احساس تنہائی میں اضافہ ہو گا۔ کچھ خیراتی ادارے جو بے گھر افراد اور باقی ضرورت مندوں کے ساتھ کام کرتے ہیں انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے ان افراد کی خصوصی ضروریات کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کے لیے اضافی مدد، وسائل اور فنڈنگ مختص کی جائے۔

لیکن کیا ایسے اقدامات بھی ہو سکتے ہیں جو عوام کی جانب سے اپنے علاقوں میں ضرورت مندوں اور بزرگوں کی مدد کے لیے اٹھائے جا سکتے ہیں؟ چیریٹی ادارے ایج یوکے کی ڈائریکٹر کیرولین ابرمز نے ‘دی انڈپینڈنٹ’ کو بتایا: ‘کچھ بہت آسان اقدام ہیں جو لینے سے بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب اگلے کچھ ہفتے یا مہینے کافی مشکل ہو سکتے ہیں۔’ سب سے پہلے اور سب سے اہم کیرولین ابرمز مشورہ دیتی ہیں کہ ہم اپنے ہمسائے میں موجود ادھیڑ عمر افراد اور ان کے خاندانوں کے پاس وہ سب اشیا ہونے کو یقینی بنائیں جو ضروری ہے کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ کیرولین کہتی ہیں: ‘کچھ خریداری کرنا، ادویات لانا یا چھوٹے چھوٹے کام کر دینا بڑی مدد ہو سکتے ہیں۔

تنہائی ختم کرنے کی مہم چلانے والے ادارے (کمپین ٹو اینڈ لونلینیس) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آپ کا ایسا کرنا گھر سے نکل کر کسی قسم کا خطرہ مول لینے کے امکانات کو بھی کم کر دے گی۔ ان کا کہنا ہے ‘آپ نیکسٹ ڈور نامی ایپ استعمال کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ اگر آپ کے ہمسائے کو کسی قسم کی کوئی مدد درکار ہے۔ اگر آپ پریشان ہیں کہ انہیں کوئی چیز چاہیے تو آپ نیکسٹ ڈور نامی ایپ سے دیکھ سکتے ہیں اور اگر آپ وائرس کی منتقلی سے خوفزدہ ہیں تو آپ بیگز دروازے پر چھوڑ سکتے ہیں۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ہم فلماوتھ کی بیکی واس سے ٹپس لے سکتے ہیں جنہوں نے ایک پوسٹ کارڈ بنایا ہے جو وہ اپنے ہمسایوں کے دروازوں پر چپکا دیتے ہیں اورجس پر لکھا ہے کہ اگر انہیں خریداری، فون کال یا کہیں سے کچھ منگوانے کے لیے کسی مدد کی ضرورت ہے تو وہ حاضر ہیں۔

ڈیجیٹل رابطوں کو فروغ دیں
گو کہ حکومتی ہدایات کا مطلب کم سے کم باہمی تعلق ہے لیکن اس مطلب سماجی عدم تعلق نہیں ہے۔ کیرولین ابرامز کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل رابطے ادھیڑ عمر افراد کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ٹیکنالوجی کے زیادہ ماہر نہیں ہیں۔ ‘یہ وقت ہے کہ ہمیں لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے نئے تخلیقی راستے نکالنے ہوں گے۔ یہ اب سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہم ایک دوسرے سے فون، آن لائن یا خط کے ذریعے رابطے میں رہیں۔

رابطوں کے عام ذرائع سے ہٹ کر کیرولین مشورہ دیتی ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ بک کلب بنائے جس میں سب فون کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ‘ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ اقدامات تنہائی کو ختم کرنے کے لیے مستقبل میں بھی کام آ سکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو معلومات دی جائیں کہ کیسے کم رسک لیتے ہوئے رابطے رکھے جا سکتے ہیں۔’ کمپین ٹو اینڈ لونلینیس نے مشورہ دیا ہے کہ وٹس ایپ گروپس کے ذریعے معلومات دیں، زوم کے ذریعے ویڈیو کالز کریں یا فیس بک، ٹوئٹر اور باقی سوشل میڈیا پلیٹ فامرز پر پوسٹس کریں یہ جانتے ہوئے کہ قریب موجود باقی افراد بھی یہ استعمال کر رہے ہیں یا آپ انہیں یہ ایپس انسٹال کرنے اور چلانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

حرکت کرتے رہیں
کیرولین ابرامز کہتی ہیں کہ ادھیڑ عمر افراد کو گھر پہ رہتے ہوئے صرف دماغی صحت کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ کم حرکت کرنے سے ان کے جسمانی صحت پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘بڑی عمر کے افراد کا کسی بھی طرح سے حرکت کرتے رہنا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ لوگ اپنی عادات اور دلچسپی کو جاری رکھیں جیسے کے اون کی فراہمی اگر انہیں بننا پسند ہے۔’ مائنڈ کے ہیڈ آف انفارمیشن سٹیفن بیکلے مشورہ دیتے ہیں کہ لوگ جب بھی ممکن ہو زیادہ سے زیادہ فطرت سے رابطہ رکھیں۔ یہ گھر پر پودے رکھنے یا کھڑی کے سے پرندے دیکھنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

اپنا وقت رضاکارانہ سرگرمیوں میں گزاریں
جب یہ وبا جاری ہے تو وہ افراد جنہیں زیادہ تنہائی کی ضرورت نہیں ہے خاص طور پر 70 سال سے کم عمر افراد یا وہ جو صحت کے مسائل نہیں رکھتے اور جن میں کرونا وائرس کی علامات نہیں پائی جاتیں وہ جسمانی طور پر بھی لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ نیشنل کیئر فاؤنڈیشن ایک ایسا ہی گروپ ہے جو رضا کاروں کی تلاش میں ہے۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو گھروں میں درکار طبی مدد فراہم کرنا ہے لیکن اب یہ گروپ برطانیہ میں ایسے لوگوں کی تلاش میں ہے جو اپنا وقت دے کر دوسروں کی مدد کر سکیں۔ آپ اس گروپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے لوگوں کے گھر سامان پہنچانے، خریداری میں مدد کرنے یا ان کے لیے کھانا بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ آپ کو اس کے لیے ڈی بی ایس چیک کی ضرورت بھی نہیں اور آپ اس کے لیے بعد کی تاریخوں میں درخواست دے سکتے ہیں۔ جب تک آپ کا چیک نہیں ہو جاتا آپ تب بھی لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

این سی ایف کے چارلس آرمٹیج نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ لانچ کرنے کے ایک ہی دن میں ابھی تک 5000 لوگ اس میں رجسٹر کروا چکے ہیں۔ ٹرسیل ٹرسٹ کی چیف ایگزیکٹو ایما ریوی نے بھی لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوڈ بینکس کے لیے رضاکار بنیں اگر ان کے پاس وقت ہے۔ ان کے ادارے کو رضاکاروں کی تعداد کم ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ ایما کہتی ہیں ‘ملکی سطح پر موجود پارٹنرز کے ساتھ اس بارے میں وسیع پیمانے پر بات چیت جاری ہے۔ ہم راہیں تلاش کر رہے ہیں تاکہ رضاکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں رضاکاروں کی ضرورت ہے۔

خوراک اور سینٹری اشیا عطیہ کریں
سپر مارکیٹس اور دکانوں سے پینک بائینگ یا ہنگامی خریداری کے بعد بڑے سٹورز جیسا کے سینسبیری اور اسدا پر راشننگ شروع کر دی گئی ہے۔ فوڈ بینکس کا کہنا ہے کہ انہیں ملنے والے عطیات میں کمی ہوئی ہے اور آنے والے دنوں میں وہ طلب پوری نہیں کر سکیں گے۔ ایما ریوی کہتی ہیں کہ انہوں نے ٹرسیل ٹرسٹ کے کسی فوڈ بینک سے یہ نہیں سنا کہ وہاں خوراک ختم ہو گئی ہے لیکن انہیں مدد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘فوڈ بینکس میں بعض اوقات کچھ چیزیں کم ہو جاتی ہیں۔ ہم سب سے کہتے ہیں کہ وہ عطیات دینا جاری رکھیں اور یہ بھی معلومات رکھیں کے ان کے مقامی فوڈ بینک میں کس چیز کی کمی ہے۔’ آپ آن لائن بھی چیک کر سکتے ہیں کہ کس فوڈ بینک پر کس چیز کی کتنی مقدار کی ضرورت ہے۔

جتنا ہو سکے عطیات دیں
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی ریٹیل ڈائریکٹر ایلیسن سوین ہجز کہتی ہیں ‘برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے لیے عطیات بہت اہم ہیں۔ اس مدد کے بغیر ہم جان بچانے والی اور دل کی ادویات ہر سال لاکھوں لوگوں تک نہیں پہنچا سکیں گے۔’ آپ گھر بیٹھے بھی ان اداروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایسا آپ لوکل گیونگ نامی ویب سائٹ یا حکومت کی رضاکاروں کے لیے بنائی ویب سائٹ پر جا کر مقامی خیراتی اداروں کو تلاش کر کے مدد کے طلب گار افراد کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ مقامی چیریٹیز جیسے کے ساؤتھ لندن کیئرز ہنگامی بنیادوں پر لوگوں سے عطیات طلب کر رہا ہے تاکہ ادھیڑ عمر اور ضرورت مند افراد کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے انہیں تنہائی سے بچایا جا سکے۔

آن لائن افراتفری نہ پھیلائیں
اب جب ہم آن لائن زیادہ وقت گزار رہے ہیں اور رابطوں کے لیے ڈیجیٹل ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم جو چیز پیغامات کے ذریعے آگے بڑھا رہے ہیں وہ کیا ہے۔ کمپین ٹو اینڈ لونلینیس کا کہنا تھا: ‘جب سوشل میڈیا استعمال کریں تو یہ خیال رہے کہ یہ صورت حال کسی کے لیے خوفزدہ کرنے والا یا تنہائی کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ مدد کی پیشکش کریں جب بھی آپ کر سکیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات یا افواہوں کو نہ پھیلائیں کیونکہ یہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔

سوفی گیلیگر

بشکریہ دی انڈپینڈنٹ